کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 264
ثواب میرے والدین یا کسی رشتہ دار کو پہنچے کسی کی وفات کے بعد کوئی اولاد اپنے والدین کو ثواب پہنچانے کے لیے مسجد بنائے اور کہے کہ اس کا ثواب میرے والدین کو پہنچے۔ محمد یعقوب 12/2/95 ج: درست ہے صحیح بخاری میں ہے سعد رضی اللہ عنہ نے کہا میری والدہ فوت ہو گئی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اس کو فائدہ پہنچے گا ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس کی طرف سے صدقہ کر اس کو فائدہ پہنچے گا ۔[1] ۵/۸/۱۴۱۶ ھ س: میت کی طرف سے رشتہ دار یا غیر رشتہ دار صدقہ خیرات کریں مثلاً کوئی دن متعین کر کے کھانا کھلانا ، قرآن خوانی کے ذریعہ ثواب پہنچانا وغیرہ کیا یہ جائز ہے یا ناجائز اگرکوئی انسان مذکورہ قسم کا کھانا کھا لے تو اس پر کیا حکم ہے ؟ محمد اکرم عربی ٹیچر ضلع اوکاڑہ8/4/86 ج: میت کی طرف سے صدقہ کرنا درست ہے اس کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے جیسا صحیح بخاری [2]اور صحیح مسلم کی حضرت سعد والی حدیث سے واضح ہے البتہ اس صدقہ کے دن اور وقت کا تعین کسی حدیث یا آیت سے ثابت نہیں اسی طرح اس صدقہ پر رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں کو جمع کرنا یا ان کا جمع ہونا بھی کسی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں میت کی طرف سے قرآن خوانی بھی ثابت نہیں اس لیے ایسے اجتماعات میں شمولیت جائز نہیں کیونکہ اس طرح غیر ثابت امور کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جبکہ ایسے امور کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے ۔ ۶/۸/۱۴۰۶ ھ س: کیا موجودہ طریقہ جو مروج ہے تین دن تک پٹی یا صفیں بچھا کے بیٹھنے کا یہ طریقہ درست ہے اور کیا وہاں جا کر دعا کی جا سکتی ہے؟ عبداللطیف تبسم ج:یہ احداد وسوگ عورتوں کے لیے ہے عام رشتہ داروں پر تین دن اور شوہر پر چار ماہ دس دن یا عدت تک ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :﴿مَا یَحِلُّ لِامْرَأَۃٍ تُؤْمِنُ باللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلٰی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ إِلاَّ عَلٰی زَوْجٍ فَإِنَّہَا تُحِدُّ عَلَیْہِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا﴾ [نہیں جائز کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے کہ وہ سوگ کرے کسی میت پر تین دن سے زیادہ مگر خاوند پر پس بے شک وہ خاوند پر چار ماہ دس دن سوگ کرے] [3]موجودہ طریقہ مروجہ تین دن تک پٹی یا صفیں بچھا کے بیٹھنا کسی آیت یا حدیث میں وارد نہیں ہوا پھر وہاں رائج دعا کا بھی کہیں ذکر نہیں ملتا تعزیت میں میت والوں کو صبر کی تلقین کرے ان کی ڈھارس بندھائے اور
[1] [بخاری ۔ کتاب الوصایا ۔ باب الاشہاد فی الوقف والصدقۃ] [2] [بخاری ۔ کتاب الوصایا ۔ باب اذا وقف أرضا ولم یبین الحدود فہو جائز] [3] [کتاب الجنائز صحیح بخاری ۔باب إحداد المرأۃ علی غیر زوجہا]