کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 261
کہ نہیں ؟ اس کی دلیل یہ ہے کہ مشکوٰۃ اول باب دفن المیت ۔ فصل ثالث میں یہ حدیث آتی ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب تم سے کوئی آدمی فوت ہو جائے تو اس کو نہ روکو اور اس کو قبر کی طرف جلدی لے جاؤ اور اس کے سر کے پاس سورہ بقرہ کی ابتداء کی آیات اورپاؤں کے پاس آخری آیات پڑھی جائیں ۔ روایت کیا اس کو بیہقی نے شعب الایمان میں اور کہا درست بات ہے کہ یہ عبداللہ بن عمر پر موقوف ہے ۔
تو اس کے بارہ میں علماء کرام کیا فرماتے ہیں کیا جائز ہے یا کہ نہیں یا کوئی ایسی حدیث آتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت پر قرآن پڑھنے سے منع فرمایا ہو براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں مفصل جواب دے کر مشکور فرمائیں ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی رہنمائی فرمائیں کہ اگر یہ پڑھنا جائز نہیں تو اس سے کس طرح بات کی جائے ۔ قاضی عبدالمنان ایبٹ آباد
ج: (۱) قبر پر قرآن مجید پڑھنا کتاب وسنت سے ثابت نہیں جو روایات اس سلسلہ میں پیش کی جاتی ہیں ان سے کوئی ایک بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی آپ نے مشکوٰۃ شریف سے جو روایت نقل فرمائی ہے اس کے متعلق محدث وقت شیخ البانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’وَرَوَاہُ الطَّبَرَانِیُ فِی الْکَبِیْرِ (۳/۲۰۸/۲) وَالْخَلاَّلُ فِی کِتَابِ الْقِرَائَ ۃِ عِنْدَ الْقُبُوْرِ (ق ۲۵/۲) بِإِسْنَادٍ ضَعِیْفٍ جِدًّا فِیْہِ یَحْیٰی بْنُ عَبْدِ اللّٰہ ِبْنِ الضَّحَاکِ الْبَابَلْتِیْ وَہُوَ ضَعِیْفٌ عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ نَہِیْکٍ ضَعَّفَہٗ أَبُوْ حَاتِمٍ وَغَیْرُہٗ وَقَالَ الْاَزْدِیُ مَتْرُوْکٌ ۔ وَالْمَوْقُوْفُ لاَ یَصِحُّ إِسْنَادُہٗ فِیْہِ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْعَلاَئِ بْنِ اللجلاَجِ وَہُوَ مَجْہُوْلٌ‘‘ [روایت کیا اس کو طبرانی نے کبیر میں اور خلال نے کتاب القراء ۃ القبور میں بہت زیادہ ضعیف سند کے ساتھ اس میں یحییٰ بن عبداللہ بن ضحاک ہے اور وہ ضعیف ہے ایوب بن نہیک سے ضعیف کہا اس کو ابو حاتم نے اور اس کے غیر نے اور کہا ازدی نے وہ متروک ہے اور موقوف کی سند صحیح نہیں اس میں عبدالرحمن بن علاء بن لجلاج ہے اوروہ مجہول ہے] [1]
تو یہ روایت مرفوعاً بھی ضعیف ہے اور موقوفاً بھی ضعیف ہے لہٰذا اس سے کسی مسئلہ پر احتجاج واستدلال درست نہیں جبکہ موقوف اگر صحیح ہو تو بھی اس سے استدلال واحتجاج برائے امر دینی درست نہیں والتفصیل فی موضعہ ۔
(۲) اس مسئلہ پر بات چیت کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کی جن حضرات سے گفتگو ہو رہی ہے وہ اس مسئلہ میں مدعی ہیں اور دعویٰ کا اثبات بذمہ مدعی ہوتا ہے اس لیے آپ ان سے دلائل کا مطالبہ کریں جو دلیل وہ پیش فرمائیں اگر صحیح ہو اور اس
[1] [ حاشیہ مشکوۃ للالبانی [کتاب الجنائز ص ۵۳۸]