کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 253
ج: ﴿وَلِتُکَبِّرُوْا اللّٰہ عَلٰی مَا ہَدَاکُمْ﴾ [اور تاکہ بڑائی کرو اللہ تعالیٰ کی اوپر اس چیز کے کہ ہدایت کی تم کو] [1]پر عمل کرنا ہے لفظ کوئی ہوں ۔
نمازِ تسبیح
س: ایک شخص نماز تسبیح باجماعت پڑھنے پر اصرار کرتا ہے اور اس کی دلیل وہ یہ دیتا ہے کہ دیگر نوافل کی طرح یہ بھی ایک نفلی نماز ہے اس کی جماعت بھی اسی طرح جائز ہے جس طرح تراویح کی جماعت جائز ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس سلسلہ میں دلائل کے ساتھ راہنمائی فرما کر مشکور اور عنداللہ ماجور ہوں ۔ عبدالغفور عابد نارنگ منڈی
ج: نماز تسبیح کی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے البتہ نماز تسبیح باجماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں صلاۃ اللیل اور قیام رمضان کی جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس سے نماز تسبیح کی جماعت پر استدلال کی حیثیت وہی ہے جو اس سے ظہر کی پہلی یا پچھلی سنتوں کی جماعت پر استدلال کی حیثیت ہے ۔ واللہ اعلم ۲۱/۱۰/۱۴۱۷ ھ
س: صلوٰۃ التسبیح باجماعت ادا کی جا سکتی ہے نیز رمضان شریف کی طاق راتوں یا رمضان شریف کی عام راتوں میں آٹھ رکعت تراویح کے بعد پڑھی جا سکتی ہے ؟ ملک محمد یعقوب ہری پور2/7/89
ج: صلوٰۃ التسبیح کی جماعت اور ہمارے ہاں رائج اجتماعی اہتمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اکیلے اکیلے پڑھیں۔ ھذا ما عندی و اللّٰہ اعلم ۴/۱۲/۱۴۰۹ ھ
س: نمازِ تسبیح والی روایت سنداً صحیح ہے یا نہیں ؟ محمد حنیف قصوری قصور
ج: صلاۃ تسبیح والی حدیث کے بارہ میں صاحب مرعاۃ اور صاحب تحفۃ الاحوذی لکھتے ہیں ’’لاَ یَنْحَطُّ عَنْ دَرَجَۃِ الْحَسَنِ‘‘ اور رسالہ ’’اَلتَّرْجِیْحُ لِحَدِیْثِ صَلاَۃِ التَّسْبِیْحِ‘‘ کے مقدمہ میں لکھا ہے ’’وَالْحَاصِلُ اَنَّ حَدِیْثَ التَّسْبِیْحِ صَحِیْحٌ لِغَیْرِہٖ لِاَنَّ لَہٗ طُرُقًا عَلٰی شَرْطِ الْحَسَنِ ، فَیَضُمُّ بَعْضُہَا اِلٰی بَعْضٍ وَیَقْوٰی بَعْضُہَا بِبَعْضٍ وَیَصِیْرُ الْحَدِیْثُ صَحِیْحًا‘‘ ۱۷/۱۰/۱۴۱۷ ھ
٭٭٭
[1] ! [البقرۃ ۱۸ پ۲]