کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 238
ابْنِ عُمَرَ اَلْاَذَانُ الْاَوَّلُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ بِدْعَۃٌ ؟ فَقَالَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ بِدْعَۃٌ ۱ ھ ج۲ص۱۴۵ وَالْاِحْتِمَالُ الْاَوَّلُ مِنْ اِحْتمَالِیَ الْحَافِظِ ہُوَ الْاَرْجَحُ ۔ ہٰذَا مَا عندی و اللّٰہ اعلم‘‘
[ابن ابی شیبہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے طریق سے بیان کیا ہے کہ جمعہ کے دن پہلی اذان بدعت ہے پس اس بات کا احتمال ہے کہ اس نے یہ علی سبیل الانکار کہا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ مراد لیتا ہو کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہیں تھی اور ہر وہ چیز جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہو اس کا نام بدعت ہے ۔
ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں کہا ہے ہم کو وکیع نے بیان کیا ہے اس نے کہا ہم کو ہشام بن غاز نے بیان کیا اس نے کہا میںنے ابن عمر کے آزاد کردہ غلام نافع سے پوچھا کہ جمعہ کے دن پہلی اذان بدعت ہے اس نے کہا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ یہ بدعت ہے اور حافظ کے دو احتمالوں سے پہلا راحج ہے]
س: جمعہ والے دن خطبہ جمعہ کے لیے یہ دو اذانیں ہم نے اب تک کی زندگی میں ہوتی دیکھی ہیں اور ہم خود بھی اس پر عمل پیرا ہیں کیا یہ صحیح ہے ؟ اور اگر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ ملے بلکہ کسی صحابی کے عمل سے ملے پھر اس پر عمل کرنا کیسا ہے؟ محمد افضل شاہد شیخوپورہ۲۱شوال ۱۴۱۲ ھ
ج: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ادوار مبارکہ میں جمعہ کی اذان ایک ہی ہوا کرتی تھی جیسے بخاری وغیرہ کتب حدیث میں تصریح موجود ہے[1] جمعہ کے لیے اذان واحد سنت نبوی ہے اور سنت خلفاء راشدین بھی نیز سنت صحابہ رضی اللہ عنہم بھی ۔ ۲۴شوال ۱۴۱۲ ھ
[مولانا عبیداللہ صاحب عفیف کے مضمون بعنوان جمعہ کی پہلی اذان کا شرعی حکم پر وضاحت]
اما بعد خیریت موجود خیریت مطلوب ۔ جناب کا مضمون بعنوان ’’جمعہ کی پہلی اذان کا شرعی حکم ‘‘ جریدہ الاعتصام میں شائع شدہ نظر سے گذرا اس کی چاروں اقساط کو بغور پڑھا ماشاء اللہ مضمون ہر لحاظ سے بہترین ہے اللہ تعالیٰ اس پرآپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ایسے تحقیقی مضامین رقم فرمانے کی توفیق دے نیز ہم سب کو سعادت دارین سے نوازے آمین یا رب العالمین ۔
اس ملاقات میں آپ کی توجہ ایک چیز کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ آپ خدشہ نمبر ۲ فثبت الامر علی ذلک کے جواب میں لکھتے ہیں ’’ہمارے نزدیک اس عبارت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ امام بخاری ، امام ابوداود اور امام نسائی رحمہم اللہ تعالیٰ کے عہد میں اذان عثمانی کو قبول عام ہو گیا تھا چنانچہ صاحب المنہل العذب
[1] [بخاری۔الجمعۃ۔باب الاذان یوم الجمعۃ]