کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 229
بَیْنَ اَنْ یَفْرُغَ مِنْ صَلاَۃِ الْعِشَائِ اِلَی الْفَجْرِ إِحْدٰی عَشَرَۃَ رَکْعَۃً یُسَلِّمُ مِنْ کُلِّ رَکْعَتَیْن وَیُوْتِرُ بِوَاحِدَۃ﴾ (الحدیث) [1] [حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے درمیان سے لے کر فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے تھے ہر دو رکعتوں میں سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے ‘‘ الحدیث] یاد رہے یہ حدیث اس سیاق کے ساتھ بخاری میں نہیں ہے ۔ واللہ اعلم ۱۱/۸/۱۴۱۴ ھ س: تہجد نماز کی رکعتیں کتنی ہیں ؟ تہجد کا افضل وقت کب ہوتا ہے ؟ محمد عثمان غنی لاہور ج: بعد از وتر والی دو رکعتوں کو شامل کر لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ پندرہ رکعت ہے ، [2]افضل وقت پچھلی رات ہے۔[3] ۱/۸/۱۴۱۷ ھ س: کیا جہری نمازیں اکیلا پڑھنے کی صورت میں قرأت جہری کرے یا سری دلائل دیں ۔ نیز اکیلا پڑھنے کی صورت میں اقامت کہے یا نہیں ۔ ترمذی کی روایت کے مطابق فَاَقِمْ کا کیا مطلب ہے ؟ عبداللطیف تبسم اوکاڑہ ج: دونوں صورتیں درست ہیں تراویح وتہجد باجماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہراً پڑھی ہے اور اکیلے سرا بھی پڑھی نماز فرض ونفل کے احکام یکساں ہیں إلا کہ فرق کتاب وسنت میں وارد ہو اور اس صورت مسؤلہ میں فرض ونفل نماز کا فرق کہیں وارد نہیں ہوا فِیْمَا اَعْلَمُ ۔ ترمذی کی روایت فَاَقِمْ باحوالہ تحریر فرمائیں ۔ ۲۸/۱۰/۱۴۱۸ ھ س: یہاں ایک تحریک محمدی کا آدمی ہے وہ کہتا ہے کہ تراویح باجماعت پڑھنا گناہ ہے ۔ دلیل یہ دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن کے بعد منع فرمایا تھا ۔ خیر اس سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ ٹھیک ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم تو دیا ہے لیکن خود نہ باجماعت پڑھی ہیں نہ پڑھائی ہیں ۔ اگر آپ ثابت کر دیں تو میں تسلیم کر لوں گا ۔ (۱) تو آپ تفصیل سے یہ بتائیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی فرضیت کے بعد صرف تین دن پڑھائی ہیں یا اس سے زیادہ نہیں ۔ اس کی کیا وجہ تھی ؟ (۲) عہد ابوبکر رضی اللہ عنہ میں تراویح باجماعت کیوں نہیں ہو سکتی ؟ (۳) اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے باجماعت پڑھی ہیں یا پڑھائی ہیں تو حوالہ دے دیں ؟ عبدالرحمن طاہر سرگودھا ج: یہ بات درست ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چند راتیں قیام کروایا پھر اس صلاۃ اللیل کی جماعت نہیں کروائی فرض ہونے کے خطرہ کو بطور عذر پیش فرمایا نیز ابوداود ، ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ قیام رمضان کے باب میں ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ِلَوْ نَفَّلْتَنَا قِیَامَ ہٰذِہِ اللَّیْلَۃِ ۔ فَقَالَ :
[1] باب صلاۃ اللیل الجلد الاول ص ۳۷۳ [2] مسلم۔صلاۃ المسافرین۔باب الدعاء فی صلاۃ اللیل و قیامہ۔ [3] [مسلم۔صلاۃ المسافرین۔ باب من خاف ان لا یقوم من آخر اللیل فلیوتر اوّلہ]