کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 223
(۳) وتروں میں دعائے قنوت قبل از رکوع اور بعد از رکوع دونوں طرح درست ہے قبل والی حدیث تو نسائی اور ابن ماجہ میں ہے اور بعد والی مستدرک حاکم میں ۔ ۲/۷/۱۴۲۰ ھ س: قنوت وتر کی حیثیت کیا ہے ؟ اس کے پڑھنے کا صحیح مقام قبل الرکوع ہے یا بعد الرکوع ؟ قبل الرکوع کی صورت میں قرات ختم کرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر قنوت پڑھی جائے گی یا دعا کے انداز میں اٹھائے بغیر ؟ قبل الرکوع ہاتھ اٹھا کر قنوت پڑھنے کی دلیل ؟ اور طریقہ کار (قراء ت ختم کر کے بغیر کچھ کہے ہاتھ اٹھائے جائیں گے یا اللہ اکبر وغیرہ کہہ کر ہاتھ دعا کے انداز میں اٹھائے جائیں گے) قنوت پڑھ لینے کے بعد ( اگر ہاتھ اٹھا کر پڑھی جائے) تو بعد میں ہاتھ منہ پر پھیرے جائیں یا ویسے ہی چھوڑ دیئے جائیں ؟ عبدالغفور عابد نارنگ منڈی ۲/۱/۱۴۱۸ ھ ج: قنوت وتر سنت ہے اس کے پڑھنے کے مقام دو ہیں قبل الرکوع وبعد الرکوع مناسب ہے نمازی کبھی اسے قبل الرکوع پڑھے اور کبھی بعد الرکوع تاکہ دونوں طریقوں پر عمل ہوتا رہے قبل الرکوعقنوت دعا کے انداز میں نیز کسی اور انداز میں ہاتھ اٹھائے بغیر پڑھی جائے گی پھر اللّٰہ اکبر کہے بغیر پڑھی جائے گی بس سورت یا آیات کی قراء ت ختم ہوتے ہی تکبیر کہے بغیر اور ہاتھ اٹھائے بغیر دعا ء قنوت پڑھنی شروع کر دے ۔ ۷/۳/۱۴۱۸ ھ س: قبل الرکوع قنوت فی الوتر کی صورت میں آپ نے تحریر فرمایا ۔قبل الرکوع قنوت دعا کے انداز میں نیز کسی اور انداز میں ہاتھ اٹھائے بغیر پڑھی جائے گی پھر اﷲ اکبر کہے بغیر پڑھی جائے گی وضاحت طلب امر یہ ہے کہ ’’دعا کے انداز میں‘‘ سے آپ کی مراد کیا ہے اور ’’ہاتھ نہ اٹھانے سے کیا مراد ہے کہ جس طرح ہم عام طور پر نماز کے باہر دونوں ہاتھ پھیلا کر دعا کرتے ہیں ۔ اس طرح ہاتھ پھیلائے جائیں گے یا بالکل جس طرح قراء ت میں ہاتھ بندھے ہوئے تھے اسی انداز میں قراء ت کے متصل بعد قنوت شروع کر دی جائے گی ؟ عبدالغفور عابد نارنگ منڈی۱۵/۳/۱۴۱۸ ھ ج: اس فقیر الی اللّٰہ الغنی نے لکھا تھا ’’قبل الرکوع قنوت دعا کے انداز میں نیز کسی اور انداز میں ہاتھ اٹھائے بغیر پڑھی جائے گی پھر اﷲ اکبر کہے بغیر پڑھی جائے گی بس سورت یا آیات کی قراء ت ختم ہوتے ہی تکبیر کہے بغیر اور ہاتھ اٹھائے بغیر دعاء قنوت پڑھنی شروع کر دے ‘‘یہ عبارت اپنے مفہوم ومدلول میں واضح بلکہ اوضح ہے اس کے باوجود آپ نے وضاحت طلب فرمادی چنانچہ آپ اس دفعہ کے مکتوب میں لکھتے ہیں ’’وضاحت طلب امر یہ ہے کہ ’’دعا کے انداز میں‘‘ سے آپ کی مراد کیا ہے اور ’’ہاتھ نہ اٹھانے ‘‘ سے کیا مراد ہے ؟ تو محترم گذارش ہے کہ ’’دعا کے انداز میں‘‘