کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 208
کسی اثر سے اور نہ قیاس سے ، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ نماز میں یہ نہ کیا جائے ‘‘ ۔
جب امام بیہقی رحمہ اللہ بھی نماز کے علاوہ دعاء کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں بعض سلف کا عمل ذکر کرتے ہیں تو مطلقاً اس عمل کو بدعت یا مکروہ قرار دینا قطعاً درست نہیں بلکہ امام احمد رحمہ اللہ کے قول سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ وتروں میں دعائے قنوت کے اختتام پر بھی منہ پر ہاتھ پھیرتے تھے اور اسی بناء پر انہوں نے اسے بھی ’’لا بأس بہ‘‘ کہا ہے حنابلہ کا عموماً مذہب بھی یہی ہے اور شوافع میں بھی قاضی ابو الطیب ، امام الحرمین ابو محمد الجوینی ، ابن الصباغ ، المتولی ، شیخ نصر ، امام غزالی رحمہم اللہ اور ابوالخیر مصنف البیان اسے مستحب قرار دیتے ہیں ۔ ان حضرات کا استدلال انہی عام روایات اور آثار سے ہے ۔ اہل علم کو ان سے اختلاف کا حق ہے اور اختلاف کیا بھی گیا ہے ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی بالآخر یہی فرمایا ہے کہ ’’فالاولی ان لا یفعلہ‘‘ (بہتر یہ ہے نماز میں منہ پر ہاتھ نہ پھیرے جائیں ) امام احمد رحمہ اللہ نے بھی ’’لا بأس بہ‘‘ کہنے کے باوجود خود اس پر عمل نہیں کیا ۔ لہٰذا اسے بدعت قرار دینا بہت بڑی جسارت [1]ہے۔ فقہاء اور ائمہ مجتہدین کے مابین یہ اختلاف افضل اور غیر افضل میں ہے ۔ بدعت یا سنت ہونے میں نہیں ۔ ہمارے نزدیک اسی مسئلہ میں محتاط قول وعمل امام احمد رحمہ اللہ کا ہے کہ عموماً دعاء کے بعد تو منہ پر ہاتھ پھیرے جائیں گے لیکن دعائے قنوت میں احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے کیونکہ اس کے متعلق کوئی صحیح اور صریح روایت نہیں جیسا کہ امام بیہقی نے فرمایا ہے لیکن اگر کوئی اس باب کی احادیث وآثار کے عموم سے وتروں میں بھی دعاء کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرتا ہے تو ہم اسے بدعت نہیں کہتے ۔ واللّٰہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب۔
س: اگر مقتدی نماز کے بعد امام کو مخاطب ہو کر اپنے متعلق دعا کرنے کو کہے امام اور مقتدی مل کر اس کے لیے دعا کریں تو کیا یہ صورت جائز ہے ؟ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کے کہنے پر بارش کی دعا کی تھی ؟ محمد اکرم اوکاڑہ 8/7/86
ج: اتفاقاً اور بسا اوقات ہو تو جواز کی صورت نکل سکتی ہے اور اگر عمداً باقاعدہ ہر فرضی نماز کے بعد ایک صاحب دعاء کی درخواست داغ دیں اور امام ومقتدی سب مل کر ہاتھ اٹھائے دعا کرنا شروع کر دیں تو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت عمل کو رواج دینے کا ایک حیلہ ہے جس سے بچنا چاہیے کیونکہ﴿ کُلُّ الْخَیْرِ فِی الْاِتِّبَاعِ﴾ [تمام خیر اتباع میں
[1] مولانا جاوید سیالکوٹی کے مضمون مطبوع الاعتصام میں دعاء کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کو بدعت نہیں کہا گیا تھا ۔ البتہ ہفت روزہ اہل حدیث جلد ۲۶ میں دعا کے موضوع پر مطبوعہ ایک مضمون میں یہ الفاظ آئے تھے ۔ جواب لکھتے وقت غالباً یہ مضمون بھی مولانا اثری صاحب کے پیش نظر رہا ہے ۔ (ن۔ح۔ن)