کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 207
ہے مگر علامہ مناوی رحمہ اللہ نے فیض القدیر ج۱ ص۳۶۹ میں کہا ہے کہ یہ ان کی بہت بڑی لغزش ہے ۔ علامہ البانی بلاشبہ علامہ مناوی سے متفق نہیں مگر ان سے پہلے یہی بات علامہ الغزی رحمہ اللہ نے السلاح میں بھی کہی ہے ۔ چنانچہ علامہ ابن علان کہتے ہیں ۔’’قال فی السلاح وقول بعض العلماء فی فتاویہ ولا یمسح وجہہ بیدیہ عقب الدعاء الا جاہل محمول علی انہ لم یطلع علی ہذہ الاحادیث‘‘ [1] یعنی ’’السلاح‘‘ میں کہا ہے کہ بعض علماء کا اپنے فتویٰ میں یہ کہنا کہ دعاء کے بعد منہ پر ہاتھ جاہل ہی پھیرتا ہے ۔ اس بات پر محمول ہے کہ انہیں ان احادیث کی خبر نہیں ہوئی ۔ ظاہر بات ہے کہ اگر اس باب کی تمام مرفوع روایات اگر علامہ ابن عبدالسلام کے نزدیک ضعیف ہیں تو کیا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہماکا عمل بھی ضعیف ہے ؟ پھر کیا جس پر امام حسن بصری رحمہ اللہ کا عمل ہو ۔ امام معمر رحمہ اللہ ۔ امام احمد رحمہ اللہ اور امام اسحاق بن راہویہ بھی اس کے قائل ہوں اس پر عمل کرنے والے کو جاہل کہا جا سکتا ہے ؟ حیرت ہے کہ علامہ البانی فرماتے ہیں کہ المجموع میں علامہ النووی رحمہ اللہ نے علامہ ابن عبدالسلام رحمہ اللہ کی موافقت کی ہے اور منہ پر ہاتھ پھیرنے کو غیر مندوب قرار دیا ہے [2] حالانکہ علامہ النووی رحمہ اللہ نے شرح المہذب (ج۳ ص۵۰۵-۵۰۱) میں دعائے وتر کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں کہا ہے صحیح یہ ہے کہ منہ پر ہاتھ نہ پھیرے جائیں اور لکھا ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ علامہ الرافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے یوں نہیں کہ دوسرے اوقات میں بھی دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کو انہوں نے غیر صحیح کہا ہے بلکہ انہوں نے کتاب الاذکار کے آخر میں آداب دعا کو ذکر کرتے ہوئے تیسرا ادب یہ بیان کیا ہے ’’ استقبال القبلۃ ورفع الیدین ویمسح بہما وجہہ فی اخرہ‘‘ کہ دعا قبلہ رخ ہو کر ہاتھ اٹھا کر کی جائے اور آخر میں دونوں ہاتھوں کو منہ پر پھیرا جائے ۔ اس لیے امام نووی رحمہ اللہ کو علامہ ابن عبدالسلام رحمہ اللہ کا ہمنوا کہنا قطعاً صحیح نہیں ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی دعائے قنوت میں اس عمل کا انکار کیا ہے ۔ نماز سے خارج اوقات میں نہیں چنانچہ ان کے الفاظ ہیں ۔ ’’ فاما مسح الیدین بالوجہ عند الفراغ من الدعاء فلست احفظ عن احد من السلف فی دعاء قنوت وان کان یروی عن بعضہم فی الدعاء خارج الصلوۃ‘‘ الخ [3] ’’ کہ قنوت میں دعاء کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں مجھے سلف سے کوئی چیز معلوم نہیں ، اگرچہ ان میں سے بعض سے نماز کے علاوہ دعا کے بعد ہاتھ پھیرنا مروی ہے مگر نماز میں یہ عمل نہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے نہ
[1] الفتوحات الربانیۃ ، ج۷ ص۲۵۸ [2] الارواء ج۲ ص۱۸۲ [3] السنن الکبری ج۲ ص۲۱۲