کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 205
سے اس کے بارے میں مروی ہے کہ وہ جب دعا کرتے ، ہاتھوں کو منہ پر پھیرتے تھے ‘‘ ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الامالی میں حضرت یزید بن سعید رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرنے کے بعد کہا ہے ۔
’’لکن للحدیث شاہد الموصولین [1]والمرسل ومجموع ذلک یدل علی ان للحدیث اصلا ویؤیدہ ایضا ما جاء عن الحسن البصری باسناد حسن وفیہ رد علی من زعم ان ہذا العمل بدعۃ وأخرج البخاری فی الادب المفرد عن وہب بن کیسان قال رایت ابن عمر وابن الزبیر یدعوان فیدیران الراحتین علی الوجہین ہذا موقوف صحیح یقوی بہ الرد علی من کرہ ذلک‘‘ (انتہی ملخص)
لیکن اس حدیث کے دو موصول اور ایک مرسل شاہد ہیں ۔ اور ان کا مجموعہ اس پر دال ہے کہ اس حدیث کی اصل ہے اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حسن بصری سے یہ عمل منقول ہے اور اس سے اس شخص کی تردید ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ یہ عمل بدعت ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’الادب المفرد‘‘ میں وہب بن کیسان سے نقل کیا ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہماکو دیکھا کہ وہ دعاء کرتے اور اپنے ہاتھوں کو منہ پر ملتے تھے یہ موقوف صحیح ہے اور اس سے اس کی سخت تردید ہوتی ہے ۔ جو اسے مکروہ سمجھتا ہے ۔
مرسل حدیث
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’الامالی‘‘ میں جس مرسل روایت کااشارہ کیا ہے غالباً اس سے مراد امام زہری رحمہ اللہ کی مرسل روایت ہے جسے امام عبدالرزاق نے ذکر کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ۔
’’ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یرفع یدیہ بحذاء صدرہ اذا دعا ثم یمسح بہما وجہہ‘‘[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کرتے تو سینے کے برابر ہاتھ اٹھاتے پھر ان کو منہ پر ملتے ۔ یہ روایت گو مرسل ہے مگر دیگر روایات اس کی مؤید ہیں ۔ جیسا کہ پہلے تفصیل گزر چکی ہے بلکہ امام عبدالرزاق نے یہ روایت معمر رحمہ اللہ کے واسطہ سے نقل کی ہے ۔ اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’رأیت معمراً یفعلہ‘‘ (میں نے معمر کو دیکھا وہ اسی طرح دعا کے آخر میں منہ پر ہاتھ پھیرتے تھے) امام زہریؒ کی اس مرسل پہ راوی کا یہ عمل اس کا مزید مؤید ہے ۔ امام اسحاق بن راہویہ کا شمار عظیم فقہائے محدثین میں ہوتا ہے ۔ وہ بھی اس کے قائل تھے ۔ چنانچہ امام محمد بن نصر المروزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’ رأیت اسحاق یستحسن العمل بہذہ الاحادیث‘‘[3]
[1] کذا فی الاصل
[2] مصنف عبدالرزاق ، ج۳ ص۱۲۳
[3] قیام اللیل ص۲۳۲