کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 201
ج: فرض نمازوں کے بعد مسنون اذکار ودعائیں پڑھ کر اٹھنا افضل ہے ۔ صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نماز سے فارغ ہو کر باوضوء کسی کو اذیت دئیے بغیر جتنی دیر اس جگہ پر بیٹھا رہے جس جگہ اس نے نماز پڑھی فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں ‘‘ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَہُ وَارْحَمْہُ[1] اب اگر اس کیفیت میں زیادہ دیر نماز کی جگہ بیٹھا رہے گا تو فرشتے مذکور بالا دعا اس کے لیے زیادہ دیر کریں گے اور اگر کم تو کم ’’فَمَنْ شَائَ فَلْیَسْتَکْثِرْ وَمَنْ شَائَ فَلْیَسْتَقِلَّ‘‘ وفقنا اللّٰه تبارک وتعالی لما یحبہ ویرضاہ آمین یا رب العالمین واللّٰه اعلم۔ ۱۲/۷/۱۴۱۵ھ
س: بعد الصلوٰۃ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا کیسا ہے اور دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنا کیسا ہے ؟ ابو عبدالقدوس ضلع شیخوپورہ
ج: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں منہ پر ہاتھ پھیرنے والی روایت میں اہل علم کے دو قول ہیں : (۱) ضعیف۔ (۲) حسن لغیرہ ہے ۔ اس بارہ میں محترم دوست مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ایک مضمون ہفت روزہ جریدہ الاعتصام جلد ۴۸ شمارہ ۶میں شائع ہوا تھا تحقیق کی خاطر اس کا مطالعہ فرما لیں۔ ۹/۷/۱۴۱۷ ھ
ابو البدر ارشاد الحق الاثری ادارۃ العلوم الاثریہ فیصل آباد
کیا دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنا بدعت ہے ؟
الاعتصام کے شمارہ نمبر۴۱ جلد ۴۷ ۔ ۳ جمادی الثانیہ بمطابق ۲۷ اکتوبر ۱۹۹۵ء میں مولانا جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب کا ایک مضمون ’’دعا کرنے کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ۔ جس میں انہوں نے اس موضوع سے متعلقہ دو احادیث پر تنقید کی ہے ۔ ایک حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی جو ابن ماجہ اور ابوداود وغیرہ میں مروی ہے اور دوسری حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی جو جامع ترمذی وغیرہ میں منقول ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بلوغ المرام میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :
’’اخرجہ الترمذی ولہ شواہد منہا عند ابی داود من حدیث ابن عباس وغیرہ ومجموعہا یقتضی بانہ حدیث حسن‘‘۔
کہ اسے ترمذی نے نکالا ہے اور اس کے اور شواہد ہیں ۔ ان میں سے ایک ابوداود کے ہاں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے اور ان شواہد کا مجموعہ اس بات کا مقتضی ہے کہ یہ حدیث حسن ہے مولانا جاوید اقبال صاحب فرماتے ہیں کہ اس باب کی تمام احادیث حسن لغیرہ تک بھی نہیں پہنچتیں ۔ اس لیے یہ شواہد بننے کے قابل نہیں ۔ نیز لکھتے ہیں کہ
[1] [بخاری۔کتاب الصلاۃ۔باب الحدث فی المسجد]