کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 197
س: پہلے تشہد میں درود شریف پڑھنا چاہیے یا نہیں جبکہ حدیث شریف میں اس طرح بھی ہے﴿اِنْ کَانَ فِیْ وَسَطِ الصَّلٰوۃِ نَہَضَ حِیْنَ یَفْرُغُ مِنْ تَشَہُّدِہٖرواہ احمد عن ابن مسعود [جب آپ نماز کے درمیان میں ہوتے تو آپ صرف تشہد پڑھ کر کھڑے ہو جاتے] اس کا کیا مطلب ہے ؟ ملک محمد یعقوب ہری پور 3/2/94 ج: پہلے قعدہ میں بھی درود پڑھنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿ یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ [اے ایمان والو تم بھی اس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم )پر درود پڑھو اور اس پر سلام بھیجو] کسی صحیح مرفوع حدیث میں درود کے بارے پہلے دوسرے قعدے میں فرق وارد نہیں ہوا رہی وہ حدیث جو آپ نے نقل فرمائی ہے تو وہ مرفوع نہیں موقوف ہے کیونکہ ’’ إِنْ کَانَ فِی وَسَطِ الصَّلٰوۃِ‘‘ الخ میں ضمیر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف لوٹتی ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دلیل اس کی یہ ہے کہ یہی حدیث صحیح ابن خزیمہ ۱/۳۴۸میں بایں الفاظ بھی آئی ہے ۔ ’’ أَنَا اَبُوْ طَاہِرٍ نَا اَبُوْبَکْرٍ نَا الْقُطْعِی مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیٰی نَا عَبْدُ الْاَعْلٰی نَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ عَن عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ اَبِیْہِ اَنَا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ مَسْعُوْدٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ ِصلی للّٰهُ علیہ وسلم عَلَّمَہُ التَّشَہُّدَ فِی الصَّلٰوۃِ قَالَ کُنَّا نَحْفَظُہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ کَمَا نَحْفَظُ حُرُوْفَ الْقُرْآنِ اَلْوَاوَ وَالْاَلِفَ فَاِذَا جَلَسَ عَلٰی وَرِکِہِ الْیُسْرٰی قَالَ اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُہُ اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِیْنَ اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ُوَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ ثُمَّ یَدْعُوْا لِنَفْسِہِ ثُمَّ یُسَلِّمُ وَیَنْصَرِفُ [حضرت عبدالرحمن بن اسود بیان کرتے ہیں اپنے باپ (اسود) سے وہ فرماتے ہیں ہمیں عبداللہ بن مسعود نے خبر دی کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تشہد فی الصلوٰۃ سکھاتے اسود کہتے ہیں ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس (تشہد) کو اس طرح یاد کرتے جس طرح ہم قرآن کے حروف واو ، الف یاد کرتے پس جب آپ بیٹھتے اپنی بائیں ران پر تو کہتے تمام قولی ، فعلی ، مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں سلامتی ہو تجھ پر اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی رحمت وبرکات ہوں ۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں پھر اپنے نفس کے لیے دعا کرتے پھر سلام پھیرتے اور نماز سے پھرتے] درمیانے قعدہ میں درود نہ پڑھنے پر گرم پتھروں والی حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے مگر وہ سنداً صحیح نہیں کیونکہ اس کی سند میں ابو عبیدہ ہے جس کا اپنے باپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ۔ [اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کا درود وسلام اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے کا بندوبست کیا ہوا ہے [1]تو جس طرح ہم
[1] [ابوداود المناسک ، باب زیارۃ القبور حدیث ۲۰۴۱ ، ۲۰۴۲]