کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 196
اللّٰہ …… اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلَہُ قَالَ ثُمَّ اِنْ کَانَ فِیْ وَسَطِ الصَّلٰوۃِ نَہَضَ حِیْنَ یَفْرُغُ مِنْ تَشَہُّدِہٖ وَاِنْ کَانَ فِیْ آخِرِہَا دَعَا بَعْدَ تَشَہُّدِہٖ بِمَا شَائَ اللّٰہ ِاَنْ یَّدْعُوَ ثُمَّ یُسَلِّمُ‘‘ مزید عبدالعزیز نورستانی نے اپنی کتاب ’’ صَلُّوْا کمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ‘‘ کے صفحہ نمبر ۴۶ میں لکھا ہے ’’قعدہ اول سے تشہد پورا کرتے ہی اٹھنا‘‘۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿اِنْ کَانَ فِیْ وَسَطِ الصَّلٰوۃِ نَہَضَ حِیْنَ یَفْرُغُ مِنْ تَشَہُّدِہٖ﴾[1] محترم المقام عبدالمنان صاحب بندہ نے دونوں دلائل لکھ دئیے ہیں ان کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ کیا کرنا چاہیے قرآن وسنت کے مطابق تطبیق فرما دیں ۔ ابوطلحہ مدنی کالونی بہاولنگر 8/8/95 ج: آپ نے جو روایت بحوالہ صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد نقل فرمائی ہے وہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ پر موقوف ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع نہیں کیونکہ ’’ فَکَانَ یَقُوْلُ اِذَا جَلَسَ‘‘ الخ اور ’’ ثُمَّ اِنْ کَانَ فِی وَسَطِ الصَّلاَۃِ‘‘ الخ میں ضمیر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف لوٹتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں لوٹتی جیسا کہ سیاق روایت اسی پر دلالت کر رہا ہے نیز صحیح ابن خزیمہ ہی میں یہی روایت ایک صفحہ پیچھے ص۳۴۸ پر موجود ہے جس کے الفاظ ہیں ’’ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْاَسْوَدِ عَنْ اَبِیْہِ أَنَا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ مَسْعُوْدٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ ِصلی اللّٰہ علیہ وسلم عَلَّمَہُ التَّشَہُّدَ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ: کُنَّا نَحْفَظُہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہ ِبْنِ مَسْعُوْدٍ کَمَا نَحْفَظُ حُرُوْفَ الْقُرآنِ الْوَاوَ وَالْألفَ فَإِذَا جَلَسَ عَلٰی وَرِکِہِ الْیُسْرٰی قَالَ اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ‘‘ الخ اس روایت سے صاف طور پر واضح ہے کہ ’’کُنَّا نَحْفَظُہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہ ِبْنِ مَسْعُوْدٍ‘‘ اور ’’فَإِذَا جَلَسَ عَلٰی وَرِکِہِ الْیُسْرٰی قَالَ اَلتَّحِیَّاتُ‘‘ الخ اسود بن یزید کا مقولہ ہے نہ کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا۔ اور اگر ’’ فکان یقول إِذَا جَلَسَ‘‘ اور ’’ ثُمَّ إِنْ کَانَ فِی وَسَطِ الصَّلاَۃِ‘‘ کی ضمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے پر کوئی صاحب اصرار فرمائیں تو یہ روایت مرفوع تو بن جائے گی مگر ہو گی مرسل کیونکہ یہ قول اسود بن یزید کے ہیں جو تابعی ہیں اور معلوم ہے کہ موقوف اور مرسل دونوں حجت نہیں ۔ پہلے قعدے میں درود کی دلیل کے لیے شیخ البانی حفظہ اللہ کی کتاب صفۃ صلاۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پڑھیں ۔ پھر اس روایت کی رو سے درمیانے اور آخری دونوں قعدوں میں درود نہیں ہے دوسرے قعدے میں تشہد کے بعد دعا ہے پھر سلام تو لامحالہ دوسرے قعدے میں درود کے لیے کوئی اور حدیث یا آیت پیش کی جائے گی اور اس میں دوسرے قعدے کی کوئی تخصیص نہیں جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ۔ واللہ اعلم ۲۰/۳/۱۴۱۶ ھ
[1] مسند احمد ج۴ ص۳ رجالہ موثوقون ابن خزیمۃ جلد ۱ ص ۳۵۰ واسنادہ حسن صلوا از نورستانی ص ۴۶