کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 177
رہا علامہ عینی کا قول ’’ وَیُؤَیِّدُ النَّسْخَ مَا رَوَاہٗ الطَّحَاوِیُ‘‘ الخ تو اس کا جواب سوال ۳ کے جواب میں آ چکا ہے ۔
(۵) اس بتوں والی کہانی کی سند بیان فرمائیں مجھے تو ابھی تک اس کہانی کی کوئی سند نہیں ملی پھر غور فرمائیں جو لوگ افتتاح صلاۃ والے رفع الیدین کے وقت بغلوں کے بتوں کو گرنے نہیں دیتے آیا وہ رکوع والے رفع الیدین میں ان کو گرنے دیں گے پھر جب وتروں کی تیسری رکعت میں پہنچتے تو کیا وہ بتوں کو اٹھا کر پھر بغلوں میں دبا لیتے تھے تو اس واقعہ کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو پھر افتتاح صلاۃ اور وتروں کی تیسری رکعت والے رفع الیدین سمیت کل رفع الیدین منسوخ قرار پاتے ہیں آیا آپ ہر رفع الیدین کو منسوخ مانتے ہیں؟
(۶) یہ سوال ان پر وارد ہو سکتا ہے جو کَانَ یَفْعَلُ سے استدلال کرتے ہیں جب کہ جواب اس کا بھی موجود مگر ہم کَانَ یَفْعَلُ سے استدلال نہیں کرتے لہٰذا ہم پر یہ سوال وارد ہی نہیں ہوتا ہم اپنا استدلال پہلے ذکر کر آئے ہیں سوال نمبر۱ کا جواب پڑھ لیں ۔
(۷) امام ترمذی نے واقعی اس حدیث کو حسن کہا ہے مگر حسن کہنے سے پہلے اسی حدیث کے متعلق انہوں نے عبداللہ بن مبارک کا قول ’’لم یثبت‘‘ بھی تو نقل فرمایا ہے چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’وَقَالَ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ الْمُبَارَکِ : قَدْ ثَبَتَ حَدِیْثُ مَنْ یَرْفَعُ وَذَکَرَ حَدِیْثَ الزُہْرِیْ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ ، وَلَمْ یَثْبُتْ حَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَمْ یَرْفَعْ إِلاَّ فِی أَوَّلِ مَرَّۃٍ حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَۃَ الْآمِلِیُ ثَنَا وَہْبُ بْنُ زَمْعَۃَ عَنْ سُفْیَانَ بِن عَبْدِ الْمَلِکِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہ ِبْنِ الْمُبَارَکِ‘‘ اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دے کر عبداللہ بن مبارک کے قول ’’لَمْ یَثْبُتْ‘‘ کی تردید فرما دی ہے تو جواباًگذارش ہے امام ترمذی کا کسی حدیث کو حسن کہنا اس کے لَمْ یَثْبُت ہونے کے منافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ مجتمع ہو سکتا ہے جیسا کہ امام ترمذی کی اپنے نزدیک حسن کی تعریف سے واضح ہے چنانچہ وہ علل صغیر میں لکھتے ہیں ’’وَمَا ذَکَرْنَا فِی ہٰذَا الْکِتَابِ حَدِیْثٌ حَسَنٌ فَإِنَّمَا أَرَدْنَا حُسْنَ إِسْنَادِہٖ عِنْدَنَا کُلُّ حَدِیْثٍ یُرْوٰی لاَ یَکُوْنُ فِی إِسْنَادِہٖ مَنْ یُتَّہَمُ بالْکَذِبِ وَلاَ یَکُوْنُ الْحَدِیْثُ شَاذًا وَیُرْوٰی مِنْ غَیْرِ وَجْہٍ نَحْوِ ذٰلِکَ فَہُوَ عِنْدَنَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ‘‘ تو یہ حدیث امام ترمذی کے نزدیک حسن لَمْ یَثْبُت ہے حسن ثبت نہیں ۔ باقی رہی موقوف ، مقطوع اور ائمہ کے اقوال واعمال تو وہ دین میں حجت نہیں خصوصاً جب وہ ثابت شدہ مرفوع احادیث کے ساتھ متصادم ومتعارض ہوں ۔
(۸) دار قطنی ہی نے اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھا ہے ’’ تَفَرَّدَ بِہِ مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ وَکَانَ ضَعِیْفًا عَنْ