کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 176
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمر شریف تک رفع الیدین کرنا ثابت ہے ؟ جواب اثبات میں ہے تو دلیل پیش کریں ورنہ اس رفع الیدین کو چھوڑ دیں کیونکہ رکوع والے رفع الیدین کو انہوں نے صرف اس لیے چھوڑ رکھا ہے کہ وہ ان کے نزدیک آخری عمر شریف تک ثابت نہیں جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے ۔ (۲) حنفی وتروں کی تیسری رکعت میں رفع الیدین کرتے ہیں کیا خلفاء راشدین حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے علیحدہ علیحدہ ان کے اپنے اپنے دور میں وتروں کی تیسری رکعت میں رفع الیدین کرنا ثابت ہے ؟ اگر ہے تو دلیل پیش کریں ورنہ اس کو بھی چھوڑ دیں یا رکوع والا رفع الیدین شروع کر دیں کیونکہ رکوع والے رفع الیدین کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم سے نفس ثبوت آپ کے ہاں بھی تسلیم شدہ ہے صرف آپ کو ان سے آپ کی مندرجہ بالا شروط وقیود سے ثبوت میں کلام ہے ورنہ سوالوں میں آپ یہ قیود وشروط ذکر نہ فرماتے جبکہ آپ کی مندرجہ بالا قیود وشروط کا اہل اسلام کے لیے رفع الیدین پر عمل کرنے کے لیے نہ ثبوت ضروری ہے نہ اثبات باقی دعویٰ نسخ درست نہیں ۔ (۳) امام طحاوی ، علامہ عینی اور امام ابن ہمام نے جو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے رفع الیدین کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ صحیح نہیں کیونکہ وہ بلا دلیل ہے مولانا عبدالحی حنفی لکھنوی التعلیق الممجد کے ص۸۹ پر لکھتے ہیں : ’’وَأَمَّا دَعْوٰی نَسْخِہٖ کَمَا صَدَرَ عَنِ الطَحَاوِی مُغْتَرًا بِحُسْنِ الظَنِّ بِالصَّحَابَۃِ التَّارِکِیْنَ وَابْنِ الْہَمَامِ وَالْعَیْنِی وَغَیْرِہِمْ مِنْ أَصْحَابِنَا فَلَیْسَتْ بِمُبْرہنٍ عَلَیْہَا بِمَآ یَشْفِی الْعَلِیْلَ وَیَرْوِی الْغَلِیْلَ‘‘ نیز اسی صفحہ پر لکھتے ہیں ’’ لاَ یُجْتَرْأُ بِنَسْخِ أَمْرٍ ثَابِتٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہ ِصلی اللّٰہ علیہ وسلم بِمُجَرَّدِ حُسْنِ الظَنِّ بِالصَّحَابِیْ مَعْ إِمْکَانِ الْجَمْعِ بَیْنَ فِعْلِ الرَّسُوْلِ وَفِعْلِہ‘‘ [خلاصہ یہ ہے کہ رفع الیدین کو منسوخ کہنے کی کوئی دلیل نہیں ہے] (۴) علامہ عینی نے اس دعویٰ کے بعد لکھا ہے ’’وَالدَّلِیْلُ عَلَیْہِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ الزُبَیْرِ رَاٰی رَجُلاً یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی الصَّلاَۃِ عِنْدَ الرُّکُوْعِ وَعِنْدَ رَفْعِ رَأْسِہٖ مِنَ الرُکُوْعِ فَقَالَ لَہٗ : لاَ تَفْعَلْ فَإِنَّ ہٰذَا شَیْئٌ فَعَلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثُمَّ تَرَکَہٗ‘‘ علامہ موصوف نے نہ تو اس روایت کی سند نقل کی ہے اور نہ کسی کتاب کا حوالہ دیا ہے جس میں سند دیکھی جا سکے مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی التعلیق الممجد کے صفحہ نمبر ۸۹ پر لکھتے ہیں ’’ ہٰذَا الْأَمْرُ لَمْ یَجِدْہٗ الْمُخَرِّجُوْنَ الْمُحَدِّثُوْنَ مُسْنَدًا فِی کُتُبِ الْحَدِیْثِ‘‘ مزید لکھتے ہیں ’’ مَا لَمْ یُوْجَدْ سَنْدُ أَثَرِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ الزُبَیْرِ فِی کِتَابٍ مِنْ کُتُبِ الْحَدِیْثِ الْمُعْتَبَرَۃِ کَیْفَ یُعْتَبَرُ بِہ بِمُجَرَّدِ حُسْنِ الظَنِّ بِالنَّاقِلِیْنَ‘‘ ۔