کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 168
کے ساتھ جب رکوع نہ ہو تو سجدہ ناقابل اعتداد ہے اس شاہد بزعمہ میں یہ بالکل نہیں ہے کہ مدرک رکوع مدرک رکعت ہے نہ منطوقاً اور نہ ہی مفہوماً ۔ تو شیخ صاحب کا عبدالعزیز بن رفیع والے اس طریق کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کا شاہد بنانا درست نہیں ۔ چند منٹ کے لیے ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ شاہد ہے مگر شیخ صاحب کا اس کو قوی قرار دینا صحیح نہیں کیونکہ قوی ہونے کی انہوں نے جو دلیل پیش فرمائی ہے وہ یہ ہے ’’فإن رجالہ کلہم ثقات‘‘ حالانکہ اس کے تمام رجال ثقات نہیں کیونکہ عبدالعزیز بن رفیع اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ’’رجل‘‘ کا واسطہ ہے جس کا صحابی ہونا ثابت نہیں تو لا محالہ وہ تابعی ہے یا تبع تابعی کیونکہ تابعی بسا اوقات تبع تابعی سے بھی روایت کر لیتا ہے جیسے صحابی بسا اوقات تابعی سے روایت کر لیتا ہے تو بہرحال یہ ’’رجل‘‘ تابعی ہو خواہ تبع تابعی مجہول ہے تو شیخ صاحب کا ’’رجالہ کلہم ثقات‘‘ کہنا ان کی محض خوش فہمی ہے ۔ چند منٹ کے لیے ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ ’’رجل‘‘ تابعی ہو خواہ تبع تابعی ہے ثقہ تو یہ روایت ’’رجل‘‘ کے تابعی ہونے کی صورت میں اعم اغلب کے تحت مرسل اور تبع تابعی ہونے کی صورت میں اعم اغلب کے تحت معضل ٹھہری اور مرسل ومعضل دونوں ضعیف ہیں لہٰذا شیخ صاحب کا اس کو قوی کہنا درست نہیں ۔ اگر یہ کہا جائے اعم اغلب کے تحت عبدالعزیز بن رفیع والی مرسل اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی موصول ضعیف دونوں مل کر حسن لغیرہ کے درجہ کو پہنچ جاتی ہیں تو جواب میں ہم عرض کریں گے برسبیل تنزل اگر ہم اس بات کو تسلیم کر لیں تو بھی یہ حسن لغیرہ بنے گی نہ کہ حسن لذاتہ ، نہ صحیح لغیرہ اور نہ ہی صحیح لذاتہ جب کہ شیخ صاحب اس کو صحیح لکھ رہے ہیں تو بہرحال شیخ صاحب کا یہ فیصلہ افراط سے خالی نہیں ۔ اگر کہا جائے کہ حسن لغیرہ تو آپ بھی تسلیم کر گئے ہیں گو برسبیل تنزل ہی سہی اور حسن لغیرہ سے بھی تو احکام ثابت ہو جاتے ہیں تو شیخ صاحب کا بیان کردہ مسئلہ تو درست ٹھہرا تو ہم جواباً عرض کریں گے نہیں ہر گز نہیں تفصیل ثانیا کے بعد دیکھیں ۔
ثانیا آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ عبدالعزیز بن رفیع والی روایت مدرک رکوع کے مدرک رکعت ہونے پر دلالت نہیں کرتی اس سے تو صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ سجدہ وسجود کے قابل اعتداد ہونے کے لیے رکوع ضروری ہے رکوع کے بغیر سجود کاکوئی اعتداد وشمار نہیں اب یہ بھی یاد رکھیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث ’’فاسجدوا ولا تعدوہا شیئا ، ومن أدرک رکعۃ فقد أدرک الصلاۃ‘‘ کی بھی مدرک رکوع کے مدرک رکعت ہونے پر دلالت نہیں نہ منطوقا اور نہ مفہوماً اس کا مدلول تو صرف اور صرف یہ ہے جس نے رکعت پا لی اس نے نماز پالی جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے رکعت سے کم کو پایا اس نے نماز کو نہیں پایا اور مدرک رکوع رکعت سے کم کو پانے والا ہے جیسے سجدے کو پانے والا لہٰذا اس کو نماز پانے والا قرار نہیں دیا جا سکتا دیکھئے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں اور ان کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ مدرک رکوع مدرک رکعت نہیں چنانچہ ان کے لفظ ہیں ’’لا یجزئک إلا أن تدرک الإمام قائما‘‘ ان لفظوں کے متعلق