کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 167
چنانچہ شیخ البانی حفظہ اللہ تعالیٰ ہی لکھتے ہیں ’’وأما اللفظ الآخر الذی ذکرہ المؤلف وعزاہ لأبی داود فلا أعلم لہ أصلا ، لا عند أبی داود ولا عند غیرہ‘‘[1]رہے پہلے لفظ تو اولاً : تو وہ اس سیاق میں ثابت ہی نہیں کیونکہ اس کی سند میں یحییٰ بن ابی سلیمان المدینی ہیں جس کی وجہ سے حدیث ضعیف ہے چنانچہ شیخ البانی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ امام حاکم کا فیصلہ ’’صحیح الاسناد یحییٰ بن ابی سلیمان من ثقات المصریین‘‘ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں ’’قلت : ووافقہ الذہبی والصواب ما أشار إلیہ البیہقی أنہ ضعیف لأن یحیی ہذا لم یوثقہ غیر ابن حبان والحاکم ، بل قال البخاری : منکر الحدیث ۔ وقال أبو حاتم : مضطرب الحدیث ، لیس بالقوی ، یکتب حدیثہ‘‘[2]تو شیخ صاحب نے اعتراف فرمایا ہے کہ یہ حدیث اس سیاق کے ساتھ ضعیف ہے مگر وہ اس سے قبل اس کو صحیح قرار دے چکے ہیں بدلیل تعدد طرق حالانکہ تعدد طرق سے حدیث کا صحیح یا حسن بن جانا کوئی قاعدہ کلیہ نہیں بلکہ بسا اوقات تعدد طرق سے حدیث کے ضعف میں اضافہ ہو جاتا ہے جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں تو اس مقام پر تعدد طرق اس حدیث کو حسن بھی نہیں بناتا چہ جائیکہ اس کو صحیح بنائے کیونکہ جو طرق شیخ صاحب نے اس مقام پر ذکر فرمائے ہیں ان میں سے کچھ تو موقوف ہیں اور کچھ مرفوع ۔ جو موقوف ہیں وہ تو مقوی مرفوع نہیں کیونکہ اصول حدیث میں وضاحت سے لکھا گیا ہے کہ کسی عالم کا قول یا عمل حدیث کے موافق آ جائے تو وہ حدیث کے ثابت ہونے کی دلیل نہیں اسی طرح کسی عالم کا قول یا عمل حدیث کے خلاف آ جائے تو وہ حدیث کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں لہٰذا آثار موقوفہ سے حدیث کو تقویت پہنچانے والی بات تو کافور ہو گئی۔ رہے مرفوع طرق تو ان میں سے ایک کے متعلق تو خود شیخ صاحب نے صراحت فرما دی ہے کہ وہ شاہد بننے کے قابل نہیں ۔ باقی صرف دو مرفوع طریق رہ جاتے ہیں جن سے تقویت کی امید وابستہ کی جا سکتی ہے ان دو میں سے بھی ایک کے متعلق خود شیخ صاحب لکھتے ہیں ’’ولم یذکر أحد منہم ہذہ اللفظۃ ’’قبل أن یقیم الإمام صلبہ‘‘ ولعل ہذا من کلام الزہری فأدخلہ یحیی بن حمید فی الحدیث ولم یبینہ‘‘ پھر اس یحییٰ کو دار قطنی نے ضعیف بھی کہا ہے تو اس سے بھی تقویت حاصل نہ ہو سکی باقی صرف ایک مرفوع طریق رہ گیا عبدالعزیز بن رفیع والا جس کے متعلق شیخ صاحب فرماتے ہیں ’’وہو شاہد قوی فإن رجالہ کلہم ثقات‘‘ مگر یہ واقع میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکور حدیث کا شاہد ہے ہی نہیں کیونکہ شاہد اور مالہ شاہد کا ایک چیز پر دلالت کرنا ضروری ہے جب کہ اس مقام پر صورت حال اس طرح نہیں کیونکہ شاہد بزعمہ کے لفظ میں ’’إِذَا جِئتم والإمام راکع فارکعوا وإن کان ساجدا فاسجدوا ولا تعتدُّوا بالسجود إذا لم یکن معہ الرکوع‘‘ اس سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ سجدہ
[1] ارواء الغلیل ص۲۶۶ ج۲ [2] إرواء الغلیل ص۲۶۱ ج۲