کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 165
اسدف اس کے علم وعمل میں برکت فرمائے ۔ مسئلہ : جو آدمی امام کے ساتھ رکوع کو پا لے تو اس نے رکعت کو پا لیا اور اس سے فاتحہ پڑھنے کی فرضیت ساقط ہو جائے گی اور وہ آدمی حدیث﴿مَا اَدْرَکَتُمْ فَصَلُّوْا وَمَا فَاتَکُمْ فَاَتِمُّوْا﴾ سے مخصوص ہو گا ۔ اور آپ کے ساتھی نے اپنے اس دعویٰ پر تین چیزوں سے دلیل لی ہے ۔ الاول : حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم نماز کی طرف آؤ اور ہم سجدہ میں ہوں تو تم سجدہ کرو اور اسے کوئی شے شمار نہ کرو اور جس نے رکعت کو پا لیا تو تحقیق اس نے نماز کو پا لیا (روایت کیا اس کو ابوداود ، ابن خزیمہ ، دار قطنی اور حاکم نے اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے ) الثانی : عبدالعزیز بن رفیع ایک آدمی سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں جب تم آؤ اور امام رکوع کر رہا ہو تو تم رکوع کرو اور اگر سجدہ کر رہا ہو تو سجدہ کرو اور سجدہ کو شمار نہ کرو جب اس کے ساتھ رکوع نہ ہو ۔ [1] الثالث : بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل ۔ لیکن یہ تینوں چیزیں مذکورہ دعویٰ کو ثابت نہیں کرتیں ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یحییٰ بن ابی سلیمان مدینی ضعیف راوی ہیں اس کے ساتھ دلیل نہیں لی جاتی فرمایا شیخ البانی حفظہ اللہ تعالیٰ نے ۔ بلکہ بخاری نے فرمایا وہ منکر الحدیث ہے اور ابو حاتم نے فرمایا مضطرب الحدیث ہے ، قوی نہیں ہے ۔ اس کی حدیث کو لکھا جائے گا ۔[2] اور جو عبدالعزیز بن رفیع عن رجل کی حدیث ہے اس میں رجل مجہول ہے اور ابھی تک اس کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہوا اور شیخ البانی حفظہ اللّٰہ وبارک فیہ للمسلمین نے [3] اس رجل کے صحابی ہونے میں تردد کیا ہے اور دو صفحوں کے بعد یقین سے فرمایا کہ حدیث مرسل ہے اور فرماتے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ حدیث اپنے مرسل شاہد اور ان آثار کے ساتھ حسن بن جاتی ہے حجت کے قابل ہے اور آخری بات کو لیا جاتا ہے ۔پس یہی آخری ہے۔ پس یہ حدیث شیخ البانی حفظہ اللہ کے ہاں بھی مرسل ہے اور مرسل حجت نہیں جس طرح کہ ثابت ہے اپنے مقام میں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی گذشتہ حدیث کو یہ مرسل تقویت نہیں دیتی کیونکہ مجہول نہیں تقویت دیتا ضعیف کو ۔ اسے یاد رکھو اور شیخ البانی حفظہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں اس قسم کی کئی مثالیں ہیں ان کے ذکر کا یہ مقام نہیں کیونکہ اس خط میں اتنی وسعت وگنجائش نہیں ہے ۔
[1] روایت کیا اس کو بیہقی نے [2] الارواء ج۱ ص۲۶۱ ح۴۹۶ [3] ارواء جزء اول ص ۲۶۱