کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 157
کا فرمان ہے﴿وَبَاطِلٌ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ [جو وہ عمل کرتے ہیں وہ باطل ہیں] بدعت اگر کفر وشرک کے درجہ پر پہنچ جائے تو پھر وہ کفروشرک والا حکم ہی رکھتی ہے ۔ ۵/۷/۱۴۱۸ ھ س: بدعت گمراہی ہے جس سے باز رہنا چاہیے جو لوگ ایسی بدعتوں میں مبتلا ہوں ان کی صحبت سے دور رہنا چاہیے جب تک کہ وہ ان بدعات سے باز نہ آجائیں ۔ ترمذی نے مجاہد سے روایت کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک مسجد میں آئے جہاں اذان ہو چکی تھی مؤذن نے تثویب کہی ( تثویب کا یہاں یہ مطلب ہے کہ جو اس زمانہ میں اہل بدعت نے نکالا ہے کہ جب لوگ اذان کے بعد آنے میں دیر کرتے ہیں تو دوبارہ پکارتے ہیں الصلوۃ الصلوۃ یا اقامت کے وقت پکارتے ہیں) یہ نیا طریقہ رائج کر لیا گیا ہے۔ بعض جگہوں اور مسجدوں میں دیکھا گیا ہے کہ اذان کے بعد مؤذن پھر پکارتا ہے اے اللہ کے بندو مسجد میں آؤ آ کر نماز پڑھو، وقت کم ہے ، بھلائی کے راستہ کی طرف آؤ حالانکہ اذان کے لفظ یہی ہیں یا اذان سے پہلے درود شریف پڑھتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس بدعتی کے پاس سے ہم کو نکال لے چل اوروہاں آپ نے نماز نہ پڑھی۔[1]اس حدیث سے یہ مطلب نکلا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور کسی بدعت میں نور نہیں ۔ یعنی وہ مؤذن بدعتی تھا اور نماز نہ پڑھی ۔ یہ تو مؤذن کی بات ہے اگر امام بدعتی ہو تو خود ہی اندازہ لگائیں ۔ تثویب کا حکم صرف نماز فجر کی اذان میں ہے یعنی ’’اَلصَّلاَۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘ ۔ اب سوال یہ ہے کہ (۱) کیا بدعتی امام کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے یا اجتناب کرنا بہتر ہے ؟ (۲) مندرجہ بالا حدیث کی تفصیل درکار ہے کہ مؤذن نے کس نماز میں کون سی بدعت کی تھی جس کا یہ حوالہ ہے ؟ (۳) ذیل کی حدیث میں فسق وفجور کی کیا تفصیل ہے ؟ ایک حدیث میں ہے کہ ہر مسلمان کے پیچھے نماز واجب ہے وہ فاسق ہو یا فاجر اور ہر امیر کی اطاعت واجب ہے وہ فاسق ہو یا فاجر ۔ یعنی فسق وفجور والے کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے تو بغیر داڑھی والے کے پیچھے بھی ہو جاتی ہے ؟قاضی جمیل احمد از لاہور ج: اما بعد ! آپ کا مکتوب موصول ہوا ۔ جس کے آغاز میں نہ تو بسم اللہ لکھی گئی اور نہ ہی مکتوب الیہ کو سلام لکھا گیا جناب نے تین سوال کیے جن کے جواب بتوفیق اللہ تبارک وتعالیٰ وعونہ ترتیب وار مندرجہ ذیل ہیں۔ (۱) بدعتی کی بدعت اگر کفر یا شرک کے زمرہ میں آتی ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے اجتناب ضروری ہے اور اگر
[1] [جامع ترمذی ابواب الصلوۃ باب ما جاء فی التثویب فی الفجر ج۱ ص۴۹۔۵۰]