کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 154
کہ (i)’’فانتہی الناس عن القراۃ الخ‘‘(ii)’’واذا قراء فانصتوا‘‘ (iii)’’من کان لہ امام فقراء ۃ الخ‘‘ یہ ساری یا ان میں سے بعض احادیث ان احادیث سے متاخر ہیں جو فاتحہ کی قرات کو مقتدی پر واجب کرتی ہیں ۔ تو جب ایسا ثابت نہیں کر سکے تو نسخ کا دعویٰ کرنا انہیں جائز نہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو امام پر تشویش اور منازعہ کا انکار کیا کہ (ما لی انازع القرآن) تو امام کو تشویش اس وقت ہوتی ہے جب مقتدی امام کے پیچھے جہرا قراء ت کرے اور مقتدی کا امام کے پیچھے سری فاتحہ پڑھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہیں کیا بلکہ اسے امام کے پیچھے پڑھنا بھی حدیث﴿لا تفعلوا الا (ان یقرأ أحدکم) بفاتحۃ الکتاب الخ﴾ وغیرہ سے واجب ٹھہرایا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اسے منسوخ نہیں کیا ۔ واللہ اعلم دوسرے سوال کا جواب : یہ تو آپ معلوم کر چکے ہیں کہ مقتدی پر امام کی قراء ت کے دوران استماع وانصات لازم ہے اور امام پر تشویش ، ونزاع ڈالنا منع ہے ، لہٰذا مقتدی کے لیے امام کے پیچھے آیات کا بلند آواز سے جواب دینا بھی جائز نہیں ۔ واللہ اعلم] س: کوئی مسافر شخص مقامی امام کے ساتھ آخری دو رکعات میں شریک ہوا ۔ اب مسافر صرف اپنی دو رکعت ہی اداکرے گا یا وہ چار رکعت والی نماز کی پہلے دو رکعتوں کی ادائیگی بھی بعد میں کرے گا اگر وہ صرف دو رکعت ہی پڑھے گا تو کیا مسافر شخص مقامی امام کے ساتھ پہلی والی دو رکعتوں کے ساتھ اپنی قصر نماز ادا کر سکتا ہے بایں صورت کہ امام اپنی چار رکعات والی نماز پوری ادا کرے گا اور مسافر پہلی دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دے گا ؟ عبدالقیوم انصاری لاہور ج: امام شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں بحوالہ مسند امام احمد رحمہ اللہ ج۳ ص۲۰۵ باب اقتداء المقیم بالمسافرلکھتے ہیں ’’ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّہٗ سُئِلَ مَا بَالُ الْمُسَافِرِ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ اِذَا انْفَرَدَ وَاَرْبَعًا اِذَا ائْتَمَّ بِمُقِیْمٍ فَقَالَ تِلْکَ السُّنَّۃُ وَفِیْ لَفْظٍ اَنَّہٗ قَالَ لَہٗ مُوْسٰی بْنُ سَلَمَۃَ اِنَّا اِذَا کُنَّا مَعَکُمْ صَلَّیْنَا اَرْبَعًا وَاِذَا رَجَعْنَا صَلَّیْنَا رَکْعَتَیْنِ ؟ فَقَالَ تِلْکَ سُنَّۃُ اَبِیْ الْقَاسِمِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَقَدْ اَوْرَدَ الْحَافِظُ ہٰذَا الْحَدِیْثَ فِی التَّلْخِیْصِ وَلَمْ یَتَکَلَّمْ عَلَیْہِ وَقَالَ اِنَّ اَصْلَہٗ فِی مُسْلِمٍ وَالنَّسَائِیْ بِلَفْظٍ قُلْتُ لِاِبْنِ عَبَّاسٍ کَیْفَ اُصَلِّیْ اِذَا کُنْتُ بِمَکَّۃَ اِذَا لَمْ اُصَلِّ مَعَ الْاِمَامِ ؟ قَالَ رَکْعَتَیْنِ سُنَّۃُ اَبِی الْقَاسِمِ‘‘ ۹/۱۰/۱۴۰۷ ھ [حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان ہے کہ وہ سوال کیے گیے مسافر کے متعلق کہ جب وہ اکیلا نماز پڑھے