کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 153
لازم ہے اور امام کے ساتھ منازعہ (بلند آواز سے پڑھ کر امام کی قرات میں خلل پیدا کرنا) منع ہے۔
اگر کہا جائے کہ دوران خطبہ کی یہ دو رکعتیں استماع وانصات کے عمومی حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے مستثنیٰ ہیں کہ﴿اذا جاء احدکم والامام یخطب فلیرکع رکعتین﴾[1] (الحدیث) (جب تم میں سے کوئی امام کے خطبہ کے دوران آئے تو دو رکعت پڑھے)
ہم اس کا جواب یہ دیں گے کہ استماع وانصات کے عمومی حکم سے امام کے پیچھے جہری نمازوں میں سری قرات کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے مستثنیٰ ہے کہ﴿لا تفعلوا الا (ان یقرأ احدکم) بفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوۃ لمن لم یقرأ بہا﴾ (نہ پڑھو مگر یہ کہ تم میں سے کوئی فاتحہ الکتاب پڑھے ، بلا شبہ اس آدمی کی کوئی نماز نہیں جو اسے نہ پڑھے)
یہ بات ہم نے شیخ حفظہ اللہ تعالیٰ اور ان کے موافق علماء کے طریقے پر چلتے ہوئے کی ہے ، ورنہ دوران خطبہ دو رکعتوں کے مسئلہ میں کوئی استثناء نہیں ، نہ ہی امام کے پیچھے مقتدی کے فاتحہ پڑھنے میں استثناء ہے کیونکہ استثناء تو وہی ہوتی ہے جہاں دو چیزیں آپس میں مخالف آ رہی ہوں ، اور یہ تو آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ سری قرات وغیرہ استماع وانصات کے منافی نہیں ۔
(۴) چوتھی بات یہ ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک روایت ’’من کان لہ امام فقراء ۃ الامام لہ قراء ۃ‘‘ (جس کا کوئی امام ہو تو امام کی قراء ت اس (مقتدی) کی قراء ت ہے) صحیح چھوڑ کر حسن درجے کی بھی نہیں (تفصیل اس کے مقام پر دیکھئے) لہٰذا یہ دلیل نہیں بن سکتی ۔
تھوڑی دیر کے لیے ہم شیخ حفظہ اللہ تعالیٰ اور ان کے موافق علماء کے مطابق مان لیتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ عام کی بنیاد خاص پر ہوتی ہے ، لہٰذا حدیث میں قراء ت سے مراد ’’فاتحہ سے بعد کی قراء ت‘‘ ہو گی اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث﴿لا تفعلوا الا (ان یقرا احدکم) بفاتحۃ الکتاب الخ﴾ اور﴿لا صلوۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب﴾
اور اس کے علاوہ وہ احادیث ہیں جو فاتحہ کی قراء ت کو واجب ٹھہراتی ہیں ، تو مقتدی پر جہری نمازوں میں بھی فاتحہ پڑھنا واجب ہو گا اور فاتحہ کے بعد والی قراء ت صرف جہری نمازوں میں منع ہو گی ۔
(۵) پانچویں بات یہ ہے کہ شیخ حفظہ اللہ تعالیٰ اور ان کے موافق علماء کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کر سکے جس سے ثابت ہو
[1] [مسلم۔الجمعۃ۔باب التحیۃ والامام یخطب]