کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 152
اس پر شاہد ہیں۔ لہٰذا یہاں بھی عام حدیث ’’فانتہی الناس عن القرأۃ‘‘ الخ کی بنیاد خاص حدیث ’’لا تفعلوا الا‘‘ الخ پر ہو گی ۔ (۳) تیسری بات یہ ہے کہ مقتدی کی اقتداء (پیروی) ، استماع (غور سے سننا) اور انصات (خاموش رہنا) ان میں سے کوئی چیز بھی امام کے پیچھے دل میں سری طور پر فاتحہ وغیرہ کے مانع اور مخالف نہیں ، ہاں ! یہ تینوں چیزیں (اقتداء، استماع ، انصات) امام کے پیچھے فاتحہ وغیرہ کو جہراً پڑھنے کی مانع اور مخالف ہیں ۔ تو مقتدی کا فاتحہ وغیرہ کو جہراً پڑھنا اقتداء ، استماع ، اور انصات کی وجہ سے منع ہے اور اس لیے بھی کہ جہراً پڑھنے سے امام کے ساتھ منازعہ (چھینا جھپٹی) والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ رہا جہری نمازوں میں فاتحہ کے علاوہ امام کے پیچھے کچھ پڑھنا ، تو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے منع ہے۔ ﴿لا تفعلوا الا﴾ الخ کہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھو ۔ تو دلائل کا تقاضا یہی ہے کہ مقتدی پر فاتحہ سری طور پڑھنا واجب ہے خواہ وہ اسے امام سے پہلے پڑھ لے ، اس کے ساتھ پڑھ لے ، بعد میں پڑھ لے یا امام جب اس کی آیات کے درمیان وقفہ کرتا ہے اس وقت پڑھ لے ۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہ پڑھو الاّ (یہ کہ تم میں سے کوئی پڑھے) فاتحہ الکتاب ، کیونکہ جو اس کو نہیں پڑھتا اس کی کوئی نماز نہیں۔ اس بات کی دلیل کہ انصات اور استماع سری قرات کے منافی اور مانع نہیں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ خطبہ جمعہ میں قرآن مجید کی قرات کرتے تھے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ کو اپنے خطبے کے دوران دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا ، پھر عام حکم بھی ارشاد فرمایا کہ : ’’جب تم میں سے کوئی آدمی آئے اور امام خطبہ دے رہاہو تو ہلکی دو رکعتیں پڑھے‘‘۔ تو یہ جو دو رکعتیں پڑھے گا ان میں سری طور پر قرات بھی کرے گا ، خطبہ بھی سنے گا اور خطبہ میں جو آیات پڑھی جا رہی ہیں ان کے لیے خاموشی بھی اختیار کرے گا ۔ معلوم ہوا کہ سری قرات کرنا انصات واستماع کے منافی نہیں منافات قرات وغیرہ کو جہراً کرنے اور انصات واستماع کے درمیان ہے ۔ جبکہ ہم امام کے پیچھے جہر کو جائز نہیں سمجھتے ۔ ہمیں دلیل سے معلوم ہو چکا ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا واجب ہے ، مقتدی کے لیے استماع اور انصات