کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 151
کیونکہ جس حدیث کی طرف ہم پہلے اشارہ کر آئے ہیں اور شیخ حفظہ اللہ تعالیٰ بھی شروع میں ’’نسخ القراۃ‘‘ کے عنوان کے تحت درج کر چکے ہیں ، یہ حدیث مقتدی پر فاتحہ کی قرات کو واجب کرتی ہے خواہ وہ امام کی قرات سن رہا ہو ، اسی طرح دوسری احادیث سے بھی یہ چیز ثابت ہوتی ہے ۔ اور یہ مخفی نہیں بلکہ واضح ہے ۔ (۳) اس کے بعد ہم مزید ضرورت تو نہیں سمجھتے کہ شیخ حفظہ اللہ تعالیٰ کی بات ’’پھر ایک جہری نماز سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے توصحابہ کو جہری نماز میں ہر قسم کی قرات سے منع کر دیا‘‘۔ پر کلام کریں لیکن آپ کے استفادہ کے لیے کہتے ہیں کہ:شیخ حفظہ اللہ تعالیٰ نے ان احادیث سے جو مطلب لیا ہے وہ کئی اعتبار سے قابل نظر ہے : (۱) روایت کے الفاظ ’’فانتہی الناس عن القراۃ الخ‘‘ زہری رحمہ اللہ کی کلام ہے نہ کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی۔ محدث مبارکپوری ترمذی (رحمہما اللہ تعالیٰ) کی شرح میں فرماتے ہیں : ’’حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر میں کہا ہے کہ یہ الفاظ : فانتہی الناس الخ روایت میں زہری کی کلام سے درج ہیں اور یہ بات خطیب نے بیان کی ہے ، تاریخ میں بخاری نے بھی اس پر اتفاق کیا ہے اور ابوداود ، یعقوب بن سفیان ، ذہلی اور خطابی وغیرہ بھی اسی بات پر متفق ہیں ۔ انتہی [1] (۲) دوسری بات یہ ہے کہ ہم شیخ حفظہ اللہ تعالیٰ کی تحقیق کے مطابق مان لیتے ہیں کہ یہ ابوہریرہ کا ہی قول ہے۔ لیکن اس میں یہ نہیں ہے کہ ’’لوگ ہر قسم کی قرات سے رک گئے‘‘ بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ ’’لوگ قرات سے رک گئے‘‘ اور دونوں لفظوں میں واضح فرق ہے ۔ مطلب یہ ہو گا کہ لوگ مابعد الفاتحہ کی قرات سے رک گئے ، دلیل اس کی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدیوں کو جہری نمازوں میں ما بعد الفاتحہ کی قرات سے منع کیا ہے اور فاتحہ کی قرات کا جہری نمازوں میں بھی حکم دیا ہے ۔ تو لوگ اس سے رکے جس سے انہیں روکا گیا تھا ۔ اور وہ تھا فاتحہ کے بعد قرات کرنا ، نہ کہ فاتحہ پڑھنے سے باز آ گئے تھے جس کے پڑھنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا ! اور عام کی بنا خاص پر ہوتی ہے ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے طلوع وغروب کے وقت نماز سے منع فرمایا لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت پا لی۔(الحدیث) تو نہی عام ہے اور حدیث ’’من ادرک رکعۃ‘‘ الخ خاص ہے ، لہٰذا عام کی بنیاد خاص پر رکھی گئی ۔ شیخ حفظہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس قاعدہ کو بہت ساری جگہوں میں اختیار کیا ہے جیسا کہ ان کی کئی قیمتی اور مفید کتب
[1] التحفۃ /۱/۲۵۵