کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 150
پہلے سوال کا جواب :
شیخ البانی حفظہ اللہ تعالیٰ نے دعویٰ کیا ہے کہ جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قراء ت ۔ خواہ فاتحہ کی قرات ہو ۔ منسوخ ہو چکی ہے ، ان کا یہ دعویٰ ان کے ذکر کردہ اس عنوان ’’نسخ القراء ۃ وراء الامام فی الجہریۃ‘‘ سے ظاہر ہے ۔ لیکن جس طرح آپ ان شاء اللہ تعالیٰ دیکھیں گے کہ انہوں نے کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کی جو ان کے دعویٰ کو ثابت کر سکے ۔
ص ۷۹پر البانی صاحب لکھتے ہیں کہ : ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی نماز میں تھے تو آپ نے مقتدیوں کو جہری نماز میں فاتحہ پڑھنے کی اجازت دے دی تھی‘‘۔
شیخ البانی کا یہ قول واضح طور پر ان کے موقف کو کمزور کرتا ہے ، کیونکہ یہ حدیث﴿لا تفعلوا الا (ان یقرأ احدکم) بفاتحۃ الکتاب﴾ نص صریح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے پیچھے جہری نماز میں فاتحہ پڑھنے کو واجب اور فرض ٹھہرایا ہے۔ اور وجوب کی علت یہ بیان فرمائی کہ﴿فانہ لا صلوۃ لمن لم یقرأ بہا﴾ جو اسے نہیں پڑھے گا اس کی کسی قسم کی نماز نہیں ہو گی۔ [1]
تو برادرم ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاتحہ پڑھنے کی جو علت بیان فرما دی ہے (کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی) فاتحہ کے جواز کا نہیں بلکہ وجوب کا فائدہ دیتی ہے ۔
شیخ حفظہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس کوتاہی سے رجوع بھی فرما لیا ہے اور جہری نماز میں مقتدی پر امام کے پیچھے قراۃ الفاتحہ کے وجوب کے قائل ہو گئے ہیں چنانچہ اسی کتاب ’’صفۃ صلاۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘ کی جب انہوں نے تلخیص کی تو اس میں لکھا : ’’سری نمازوں میں امام کے پیچھے مقتدی پر فاتحہ پڑھنا واجب ہے ، جہری نمازوں میں بھی اگر امام کی قرات سنائی نہ دے ، یا فاتحہ پڑھ کر امام کچھ دیر کے لیے سکتہ کرے تو مقتدی پر فاتحہ پڑھنا واجب ہے‘‘۔
شیخ حفظہ اللہ تعالیٰ نے فاتحہ کے ’’جواز‘‘ سے ’’وجوب‘‘ کی طرف اور جہری میں ’’منسوخ‘‘ سے ’’محکم‘‘ ’’عدم نسخ‘‘ کی طرف جو رجوع کر لیا ہے یہی درست ہے ، ان کی یہ بات بھی درست ہے ۔
’’اگرچہ ہمارے خیال میں امام کا یہ سکتہ کرنا (فاتحہ پڑھ کر مقتدیوں کو فاتحہ پڑھنے کے لیے وقت دینا سنت سے ثابت نہیں) لیکن شیخ (اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے) کی یہ بات درست نہیں کہ : ’’اگر امام کی قرات نہ سنے تو پھر مقتدی فاتحہ پڑھ سکتا ہے‘‘۔
[1] [ابوداود ۔ الصلاۃ ۔ باب من ترک القراء ۃ فی صلاتہ۔ ترمذی ۔ الصلاۃ ۔ باب فی القراء ۃ خلف الامام]