کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 141
س: ہمارے گھر کے قریب حنفی دیوبندیوں کی مسجد ہے میں اس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں ۔ ۲۰ مارچ بروز بدھ عصر کی نمازکے بعد مولوی صاحب نے بیان فرمایا کہ جو شخص سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھتا ہے قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کے انگارے دئیے جائیں گے ۔ جس میں مجھے بہت پریشانی ہوئی ۔ اس مسئلہ کی قرآن وحدیث سے وضاحت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں ۔ رانا محمد رشیدمین بازار کلاسوالہ تحصیل پسرور 21/3/96 ج: آپ نے سوال میں لکھا ہے ’’مولوی صاحب نے بیان فرمایا کہ جو شخص سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھتا ہے قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کے انگارے دئیے جائیں گے‘‘ ۔ مولوی صاحب مذکور کی یہ بات نہ تو قرآن مجید میں ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صحیح یا حسن حدیث میں ہے ، البتہ مؤطا امام محمد رحمہ اللہ میں لکھا ہے ’’قَالَ مُحَمَّد أَخْبَرَنَا دَاؤد بْنُ قَیْسٍ الْفَرَائُ الْمَدَنِی أَخْبَرَنِیْ بَعْضُ وُلْدِ سَعْدِ بْنِ اَبِیْ وَقَاصٍ أَنَّہٗ ذُکِرَ لَہُ أَنَّ سَعدًا قَالَ وَدِدْتُ اَنَّ الَّذِیْ یَقْرَأُ خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْ فِیْہِ جَمْرَۃٌ‘‘ مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی مؤطا مذکور کے حاشیہ پر لکھتے ہیں : ’’قَوْلُہٗ بَعْضُ وُلْدِ بِضَمِّ الْوَاوِ وَسُکُوْنِ اللاَّمِ اَیْ اَوْلَادُہٗ وَلَمْ أَعْرِفْ اِسْمَہُ قَالَ ابْنُ عَبْدِالبَرِّ فِی الاِسْتِذْکَارِ ہٰذَا حَدِیْثٌ مُنْقَطِعٌ لاَ یَصِّحُ انتہی‘‘ (۹۸-۹۹) نیز مؤطا امام محمد رحمہ اللہ میں ہے ’’قَالَ مُحَمَّد أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ قَیْسٍ الْفَرَائُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بنُ عَجْلاَنَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لَیْتَ فِیْ فَمِ الَّذِیْ یَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ حَجَراً‘‘ (۹۸) تہذیب التہذیب میں لکھا ہے ’’محمد بن عجلان ۱۴۸ ہجری میں فوت ہوئے‘‘ (ج۹ ص۳۴۲) تو یہ روایت بھی بوجہ محمد بن عجلان کے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہ پانے کے صحیح نہیں اور نہ ہی حسن ہے ۔ تو سعد بن ابی وقاص اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما والی یہ دونوں روایتیں کمزور ہیں پھر مولوی صاحب والی بات ’’جو شخص سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھتا ہے قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کے انگارے دئیے جائیں گے‘‘ ان دونوں روایتوں میں بھی نہیں ہیں جیسا کہ ان کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے ۔ واللہ اعلم ۱۰/۱۱/۱۴۱۶ ھ س: مَا حُکْمُ قِرَائَ ۃِ الْمَامُوْمِ لِلْفَاتِحَۃِ خَلْفَ الْاِمَامِ ؟ ہَلْ ہِیَ وَاجِبَۃٌ عَلَیْہِ اَمْ اَنَّہَا سُنَّۃٌ ؟ [امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی قراء ۃ مقتدی کے لیے کیا حکم رکھتی ہے کیا وہ اس پر واجب ہے یا سنت؟] صلاح بن عایض الشلاحی الکویت ۲۶ ربیع الاول ۱۴۱۶ ھ ج: وَاجِبَۃٌ [واجب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے﴿لاَ صَلٰوۃ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ[1] جس نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں صحیح ابن خزیمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف فرمان مقتدی کے لیے ،﴿عن
[1] صحیح بخاری ج۱ ص۱۰۴