کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 140
اس سے پتہ چلا کہ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب جامعہ اشرفیہ والے بات چیت کرنا چاہتے ہیں اس لیے برائے مہربانی آپ جواب ان کے اپنے دست مبارک سے لکھوا کر بھیجا کریں ورنہ وہ پہلے کی طرح پھر بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے میری بات ان تک نہیں پہنچائی لہٰذا آئندہ آپ جواب ان کے اپنے ہاتھ سے لکھوا کر بھیجیں ۔
رہا مسئلہ کی اہمیت ونزاکت والا معاملہ تو حضرت الامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کا مسئلہ تو فاتحہ خلف الامام سے بھی کہیں بڑھ کر اہم اور نازک ہے اس لیے بات چیت ہو تو حضرت الامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کے موضوع پر ہو تاکہ فاتحہ خلف الامام سمیت تمام اختلافی مسائل حل ہو جائیں فاتحہ خلف الامام پر بات چیت کی صورت میں تو صرف یہی ایک مسئلہ حل ہو گا نیز تقلید کا وجوب ثابت ہونے کی صورت میں بندہ نے مقلد بھی ہو جانا ہے جس کا مولانا موصوف کو دنیا وآخرت میں بہت ہی زیادہ فائدہ پہنچے گا ۔ ان شاء اللّٰہ تعالیٰ
تو خیر کوئی بات نہیں اگر وہ فاتحہ خلف الامام کے موضوع پر ہی بات چیت کرنا چاہتے ہیں اور تھوڑے فائدے کو ہی زیادہ فائدے پر ترجیح دیتے ہیں تو بندہ اسی موضوع پر بات چیت کر لیتا ہے تو آپ نے لکھا ’’میں نے آپ کا جواب ان کو پڑھ کر سنایا انہوں نے سن کر مجھ سے کہا کہ قرآن میں آیت ہے﴿وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ انہوں نے مجھ سے کہا کہ انہیں لکھو کہ وہ مولانا سرفراز صاحب کی کتاب احسن الکلام جو کہ دو جلدوں میں ہے اس کا مطالعہ کریں ‘‘ الخ۔
تو محترم کتاب احسن الکلام کا بندہ نے پہلے بھی کئی دفعہ مطالعہ کیا ہوا ہے اور آپ کا یہ خط پہنچنے پر میں نے اس کتاب کے مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے متعلق باب کو ایک دفعہ پھر بڑی توجہ سے پڑھا تو ا س سارے باب میں جو کچھ بیان کیا گیا اس کا حاصل کل تین چیزیں ہیں ۔ (۱) مذکورہ بالا آیت مبارکہ نماز کے بارہ میں نازل ہوئی ہے ۔ (۲) الاستماع کا معنی ہے الاصغاء اور الانصات کا معنی ہے السکوت مع الاستماع ۔ (۳) اس سے سراً اور جہراً دونوں طرح قرء ات (پڑھنے) کی ممانعت نکلتی ہے ۔ میں نے صاحب احسن الکلام کی طرف سے اس آخری اور تیسری چیز پر پیش کردہ مواد پرکافی غور وفکر کیا مگر مجھے اس مواد میں کوئی ایک جملہ بھی ایسا نہیں ملا جو آیت کے سراً قرأ ت (پڑھنے) کی ممانعت پر دال ہونے کی فی الواقع دلیل بن سکے اس لیے آپ مولانا موصوف سے مؤدبانہ عرض کریں کہ وہ کوئی ایسی دلیل پیش فرمائیں جس سے مذکورہ آیت مبارکہ کا سراً قرا ء ت (پڑھنے) کی ممانعت پر دلالت کرنا فی الواقع ثابت ہو بھی جائے تاکہ بات آگے چل سکے ۔ ۱۸ شوال ۱۴۰۲ ھ