کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 132
کہنا؟ تو آپ نے جواب دیا تھا نماز میں سینے پر یا زیر ناف ہاتھ باندھنا قرآن وحدیث کی روشنی میں نہ فرض ہیں نہ واجب اور نہ ہی سنت مؤکدہ ۔ ہاں آمین کہنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً اور فعلاً ثابت ہے ۔ حافظ صاحب اگر ہاتھ باندھنا سینے پر یا زیر ناف سنت بھی نہیں تو ہم اور آپ کس کی سنت پر عمل کر رہے ہیں ؟ شوکت علی ربانی جامعہ رحمانیہ اہل حدیث گوجرانوالہ ج: جس بات کی آپ وضاحت طلب فرما رہے ہیں اس سلسلہ میں گذارش ہے کہ آپ میرے الفاظ ’’سینے پر یا زیر ناف ہاتھ باندھنا‘‘ الخ پر ذرا توجہ فرمائیں نیز لفظ ’’یا‘‘ اور لفظ ’’اور‘‘ دونوں کے فرق کو ملحوظ رکھیں تو آپ بات سمجھ جائیں گے ان شاء اللّٰہ تعالیٰ ۔ اس عبارت میں مطلق ہاتھ باندھنے کے فرض ، واجب اور سنت مؤکدہ ہونے کی نفی نہیں اس عبارت میں سینے پر اور زیر ناف ہاتھ باندھنے دونوں صورتوں کے فرض واجب اور سنت مؤکدہ ہونے کی بھی نفی نہیں اس عبارت میں تو سینے پر اور زیر ناف ہاتھ باندھنے دونوں صورتوں میں سے صرف اور صرف ایک صورت کے فرض واجب اور سنت مؤکدہ ہونے کی نفی ہے ۔اس مسئلہ کی تفصیل کے لیے میرا اس موضوع پر رسالہ اردو بازار سے لے کر مطالعہ فرما لیں اللہ تعالیٰ ہر ایک کو نیکی کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین ۔ ۲۹/۶/۱۴۱۰ ھ س: أَیْنَ یَضَعُ الْمُصَلِّیْ یَدَیْہِ فِی الصَّلٰوۃِ عَلٰی صَدْرِہٖ اَمْ تَحْتَ الصَّدْرِ اَمْ تَحْتَ السُّرَّۃِ؟ وَأَیْنَ یَضَعُ یَدَیْہِ بَعْدَ الْقِیَامِ مِنَ الرُّکُوْعِ [نمازی اپنے ہاتھوں کو نماز میں کہاں رکھے سینے پر یا سینے کے نیچے یا ناف کے نیچے اور کہاں رکھے اپنے ہاتھوں کو رکوع سے کھڑا ہونے کے بعد ؟] صلاح الدین عایض الشلاحی الکویت۲۶ربیع الاول ص ۱۴۱۶ ھ ج: عَلَی الصَّدْرِ ، وَیُرْسِلُ بَعْدَ الرُّکُوْعِ [سینے کے اوپر رکھے ، رکوع کے بعد اپنے ہاتھوں کو چھوڑ دے] عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی للّٰهُ عنہ قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ صلی للّٰهُ علیہ وسلم فَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدَہِ الْیُسْرٰی عَلٰی صَدْرِہٖ [حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پس آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں پر رکھا اوپر اپنے سینے کے] [1]
[1] [صحیح ابن خزیمہ ص ۲۴۳ ج۱ ، مسند احمد ص ۲۸۷ ج۵]