کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 131
اِخْتَلَطَ أَخِیْرًا وَلَمْ یُتَمَیَّزْ حَدِیْثُہٗ فَتُرِکَ‘‘ نیز مصنف ابن ابی شیبہ ص ۲۷۰ ج۱ میں امام ابراہیم کے ساتھ ان کے کوفہ میں فتویٰ۔ امام مجاہد کے ساتھ ان کے ’’مدینہ منورہ میں فتویٰ‘‘ اور امام حسن کے ساتھ ان کے ’’بصرہ میں فتویٰ‘‘ دینے کا کوئی ذکر نہیں۔ اصول شاشی ، نور الانوار ، حسامی ، مسلم الثبوت ، تلویح توضیح اور دیگر اصول فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے ’’شرع کے اصول ودلائل چار ہیں ۔ (۱) کتاب اللہ تبارک وتعالیٰ ۔ (۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ثابتہ ۔ (۳)اجماع امت ۔ (۴) قیاس صحیح ‘‘ اور معلوم ہے کہ مذکور بالا تین تابعین کے مذکور بالا آثار کتاب اللہ ہیں ، نہ ہی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہی اجماع اور نہ ہی قیاس صحیح ۔ پھر اس قسم کے آثار دوسری طرف بھی موجود ہیں مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ ص۲۷۰ ج۱ میں ہے : ’’ أَنَّ أُمَّ الدَّرْدَائِ کَانَتْ تَجْلِسُ فِی الصَّلاَۃِ کَجِلْسَۃِ الرَّجُلِ‘‘ اور محولہ بالا اسی مقام پر ہے ’’عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ تَقْعُدُ الْمَرْأَۃُ فِی الصَّلاَۃِ کَمَا یَقْعُدُ الرَّجُلُ‘‘ سجود کے سلسلہ میں ابراہیم نخعی کے قول کو لے لینا اور جلوس وقعود کے سلسلہ میں ان کے قول کو نہ لینا سراسر ناانصافی ہے نیز اسی محولہ بالا مقام پر ہے ’’ أَنَّ صَفِیَّۃَ کَانَتْ تُصَلِّیْ وَہِیَ مُتَرَبِّعَۃٌ‘‘ پھر اسی مقام پر ہے ’’ عَنْ نَافِعٍ قَالَ : تَرَبَّع‘‘ اور ص ۲۷۱ج۱ پر ہے ’’عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ حَمَّادًا عَنْ قُعُوْدِ الْمَرْأَۃِ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ : تَقْعُدُ کَیْفَ شَائَ تْ‘‘۔ (۷) یہ روایت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے شاگرد نافع کے شاگرد کی وجہ سے ضعیف ہے آپ ان کے حالات تفصیلاً دیکھنا چاہتے ہیں تو ’’سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ‘‘ جلد اول حدیث ۴۵۸ از ص ۴۶۳ تا ص ۴۶۹ پڑھ لیں ۔ پھر اگر اسی قسم کی روایات پر اعتماد کرنا ہے تو مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول ص ۲۷۰ پر ہے ’’ عَنْ نَافِعٍ قَالَ کُنَّ نِسَائُ ابْنِ عُمَرَ یَتَرَبَّعْنَ فِی الصَّلاَۃِ‘‘ پھر نافع ہی فرماتے ہیں ’’عورت چوکڑی بیٹھتی ہے‘‘ اور کئی حنفی لکھتے ہیں ’’راوی کا عمل یا قول اس کی روایت کے خلاف ہو تو عمل راوی کے قول یا عمل پر ہو گا نہ کہ اس کی روایت پر ‘‘۔ س: حافظ صاحب میں گناہ گار آپ کی ایک مناظرانہ خط وکتابت پڑھ رہا تھا جو کہ آپ کے اور جناب محمد صالح صاحب کے درمیان ہوئی تھی جو کہ ایک کتاب کی شکل میں حضرت مولانا محمد خالد گھرجاکھی صاحب نے چھپوا کر عوام کے سامنے پیش کر دی ہے ۔ جو ۱۹۸۴کا واقعہ ہے ۔ محمد صالح صاحب کے مکتوب نمبر ۳ ۔ ۲۸ فروری میں سوال نمبر ۱ میں اس نے پوچھا ہے کہ نماز میں سینے پر یا زیر ناف ہاتھ باندھنا فرض ہیں یا واجب یا سنت مؤکدہ ۔ اسی طرح آمین