کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 130
حَدِیْثٌ مُنْقطِعٌ ، وَہُوَ أَحْسَنُ مِنَ الْمَوْصُوْلِیْنَ قَبْلَہٗ‘‘ پھر ابوداود والی سند کے ساتھ اس مرسل روایت کو بیان کیا۔ علامہ علاؤ الدین مار دینی حنفی حاشیہ بیہقی میں لکھتے ہیں ’’ظَاہِرُ کَلاَمِہٖ أَنَّہٗ لَیْسَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ إِلاَّ الْاِنْقِطَاع، وَسَالِمٌ مَتْرُوْکٌ حَکَاہُ صَاحِبُ الْمِیْزَانِ عَنِ الدَّارقُطْنِی‘‘ ۔
تو علامہ ماردینی حنفی کے بیان کے مطابق اس روایت میں انقطاع والے نقص کے ساتھ ساتھ اس کی سند میں سالم بن غیلان کے متروک ہونے والا نقص بھی موجود ہے لہٰذا اس مقام پر ’’ہمارے نزدیک مرسل حجت ہے‘‘ والا اصول بھی نہیں چل سکتا کیونکہ حنفیوں کا یہ اصول اس مرسل کے متعلق ہے جس مرسل کی سند صحیح یا حسن ہو اور اس مرسل کی سند نہ صحیح ہے اور نہ حسن کیونکہ اس کی سند میں سالم بن غیلان متروک راوی موجود ہے ۔
چند منٹ کے لیے ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ مرسل روایت اسنادی اعتبار سے حنفیوں کے نزدیک حسن کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے پھر بھی ان کے نزدیک قابل احتجاج واستدلال نہیں کیونکہ ان کے نزدیک مرسل روایت اس وقت حجت ہوتی ہے جب ارسال کرنے والے تابعی کی عادت معلوم ہو کہ وہ صرف ثقات ہی کو حذف کرتا ہے دیکھئے شرح نخبہ اور یہ چیز یزید بن ابی حبیب میں معلوم نہیں ہو سکی ورنہ ان کی اس عادت کو دلائل سے ثابت کیا جائے پھر ان کی مرسل روایت کو حجت بنایا جائے ۔
حوالہ نمبر۴ میں لکھا گیا ہے ’’امام داود مراسیل میں روایت ‘‘ الخ یہ امام داود نہیں امام ابوداود ہیں ۔
(۵) اس روایت کی سند میں ’’الحارث‘‘ نامی راوی ہے جس کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھا ہے ’’وَقَالَ مُفَضَّلُ بْنُ مُہَلْہَلٍ عَنْ مُغِیْرَۃَ سَمِعَ الشَّعْبِیَّ یَقُوْلُ : حَدَّثَنِیْ الْحَارِثُ وَأَشْہَدُ أَنَّہٗ أَحَدُ الْکَذَّابِیْنَ ۔ وَرَوَی مُحَمَّدُ بْنُ شَیْبَۃَ الضَّبِیُّ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ قَالَ : زَعَمَ الْحَارِثُ الْأَعْوُرُ وَکَانَ کَذَّابًا‘‘ ص ۴۳۶ ج۱ میزان الاعتدال میں اسی مقام پر ہے ’’جَرِیْرٌ عَنْ حَمْزَۃَ الزَّیَّاتِ قَالَ : سَمِعَ مُرَّۃُ الْہَمْدَانِیْ مِنَ الْحَارِثِ أَمْرًا فَأَنْکَرَہٗ فَقَالَ لَہٗ : اُقْعُدْ حَتّٰی أَخْرُجَ إِلَیْکَ ۔ فَدَخَلَ مُرَّۃُ فَاشْتَمَلَ عَلٰی سَیْفِہٖ ، فَأَحَسَّ الْحَارِثُ بِالشَّرِّ فَذَہَبَ ۔ وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ: کَانَ الْحَارِثُ غَالِیًا فِی التَّشَیُّعِ وَاہِیًا فِی الْحَدِیْثِ‘‘ ۔
(۶) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما والی موقوف روایت کی سند میں سعید بن ایوب اور یزید بن حبیب دو راوی ہیں جن کے حالات مجھے ابھی تک نہیں ملے اس لیے حوالہ دینے والوں کی ذمہ داری ہے کہ ان دونوں کا ثقہ ہونا ثابت کریں ۔ پھر صحابہ والی مقطوع روایت کی سند میں لیث بن ابی سلیم ہے جس کے متعلق تقریب التہذیب میں لکھا ہے ’’صُدُوْقٌ