کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 129
(۳،۸) ان دونوں حوالوں میں مذکور روایت ایک ہی ہے جس کے کچھ حصہ کو نمبر۳ میں نقل کر کے ص ۲۲۳ کا حوالہ دیا گیا ہے جبکہ یہ حصہ ص ۲۲۲ پر ہے اور کچھ حصہ کو نمبر۸ میں نقل کر کے حوالہ ص ۲۲۲ کا دیا گیا ہے جبکہ یہ حصہ ص ۲۲۳ پر ہے ایک روایت کے دو حصوں کو دو نمبروں میں ذکر کرنا تو سمجھ میں آتا ہے البتہ دونوں حصوں کے صفحات کی تبدیلی کم از کم میرے لیے تو ناقابل فہم ہے کہ اس سے تبدیلی کرنے والوں کا کیا مقصد ہے یا ویسے ہی ان سے بھول ہو گئی ہے ۔ پھر اس روایت کو بھی خود امام بیہقی نے ہی ضعیف قرار دیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں : ’’ وَقَدْ رُوِیَ فِیْہِ حَدِیْثَانِ ضَعِیْفَانِ لاَ یُحْتَجُّ بِأَمْثَالِہِمَا‘‘ ان دو میں پہلی یہی حوالہ نمبر۳ اور حوالہ نمبر۸ میں ذکر کردہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی روایت ہے نیز لکھتے ہیں : ’’وَاللَّفْظُ الْأَوَّلُ ، وَاللَّفْظُ الْآخِرُ مِنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مَشْہُوْرَانِ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، وَمَا بَیْنَہُمَا مُنْکَرٌ وَاللّٰہ اعلم‘‘ ۔ ’’مَا بَیْنَہُمَا‘‘ سے اس روایت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے وہی دو حصے مراد ہیں جو حوالہ نمبر۳ اور حوالہ نمبر۸ میں بیان ہوئے ۔ اس روایت کی سند میں عطاء بن عجلان نامی ایک راوی ہے جس کے متعلق خود امام بیہقی ہی لکھتے ہیں ’’وَکَذٰلِکَ عَطَائُ بْنُ عَجْلاَنَ ضَعِیْفٌ‘‘ ص ۲۲۳ ج۶ اور تقریب التہذیب ص ۲۳۹ میں ہے ’’ عَطَائُ بْنُ الْعَجْلاَنِ الْحَنْفِیُّ أَبُوْ مُحَمَّدٍ الْبَصْرِی الْعَطَّارُ مَتْرُوْکٌ ، بَلْ أَطْلَقَ عَلَیْہِ ابْنُ مَعِیْنٍ وَالْفَلاَّسُ ، وَغَیْرُہُمَا الْکَذِبَ مِنَ الْخَامِسَۃِ‘‘ ۔ نیز صاحب حوالہ جات نمبر۸ میں ’’وَیَأْمُرُ النِّسَائَ أَنْ یَّتَرَبَّعْنَ‘‘ کا ترجمہ یا مطلب بیان کرتے ہیں ’’اور عورتوں کو حکم دیا کرتے کہ سمٹ کر بیٹھیں‘‘ معلوم نہیں اس مقام پر انہوں نے ایسا کیوں کیا جبکہ خود انہوں نے اسی لفظ ’’یَتَرَبَّعْنَ‘‘ کا ترجمہ ومطلب حوالہ نمبر۷ میں ’’چوکڑی بیٹھتی تھی‘‘ کیا ہے۔ پھر اس روایت کے مطابق عورتوں کو تشہد میں چوکڑی بیٹھنے کا حکم ہے جبکہ معلوم ہے کہ حنفیوں کی عورتیں بھی تشہد میں چوکڑی نہیں بیٹھتیں ۔﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ﴾ چوکڑی بیٹھنے کو منسوخ قرار دینے والی روایت نہ صحیح اور نہ ہی حسن جیسا کہ تفصیل آ رہی ہے ان شاء اللّٰہ ۔ (۴) یہ روایت مرسل ہے یزید بن ابی حبیب اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں جبکہ یزید بن ابی حبیب کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہیں اور نہ ہی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہے اس لیے یہ روایت قابل احتجاج واستدلال نہیں اور اس کا مرسل ومنقطع ہونا امام ابو داود کے اس کو مراسیل میں بیان کرنے سے ہی واضح ہے ۔ پھر امام بیہقی نے سنن کبریٰ ص ۲۲۳ ج۲ میں اسی مرسل روایت کے بارہ میں لکھا ہے ’’وَرُوِیَ فِیْہِ