کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 127
آیا ۔ البتہ میت کے ذمہ صیام اور حج ہو تو اس کے قریبی رشتہ دار اس کی طرف سے ادا کر دیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:﴿مَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ صِیَامٌ صَامَ عَنْہُ وَلِیُّہٗ[1] [جو کوئی فوت ہو جائے اور اس پر روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے] [2] صحیح مسلم میں میت کی طرف سے حج ادا کرنا بھی مذکور ہے نیز میت کی طرف سے قرض وزکاۃ ادا کرنا بھی ثابت ہے جو حج، قرض اور زکاۃ میت پر فرض تھے مگر زندگی میں ادا نہ ہو سکے۔ ۶/۱۰/۱۴۱۸ ھ س: عورت کی نماز اور مرد کی نماز میں فرق کیوں ہے ؟ حوالہ نمبر ۱ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابن حجر جب تم نماز پڑھو تو کانوں کے برابر ہاتھ اٹھاؤ اور عورت اپنے ہاتھوں کو چھاتی کے برابر اٹھائے ۔ [3] حوالہ نمبر ۲ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ عورت جب نماز میں بیٹھے تو دایاں ران بائیں ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپناپیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو زیادہ ستر کی حالت ہے اللہ تعالیٰ اسے دیکھ کر فرماتے ہیں اے فرشتو ! گواہ ہو جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا ہے ۔ [4] حوالہ نمبر۳ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم دیا کرتے تھے خوب کھل کر سجدہ کریں اور عورتوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ خوب سمٹ کر سجدہ کریں ۔[5] حوالہ نمبر ۴ : امام داود مراسیل میں روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گذرے جو نماز پڑھ رہیں تھیں تو فرمایا جب تم دونوں سجدہ کرو تو اپنے جسم کو زمین کے ساتھ ملا دو بے شک عورت اس بارہ میں مرد کی طرح نہیں ہے ۔ [6] حوالہ نمبر ۵ : آخری خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرمایا کرتے تھے کہ جب عورت سجدہ کرے تو خوب سمٹ کر سجدہ کرے اور اپنی رانوں کو ملا لے ۔[7] حوالہ نمبر۶ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے عورت کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا یعنی خوب اکٹھی ہو کر اور سمٹ کر نماز پڑھیں۔ [8]کوفہ میں امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ یہی فتویٰ دیتے تھے ۔ مدینہ منورہ میں حضرت مجاہد اور بصریٰ میں امام حسن بصری رحمہ اللہ یہی فتویٰ دیتے تھے۔[9]
[1] متفق علیہ [2] [صحیح بخاری ۔ کتاب الصوم باب من مات وعلیہ صوم] [3] کنز العمال ص ۳۰۷ ج۷ [4] بیہقی ص ۲۲۳ ج۲ [5] بیہقی ص ۲۲۳ ج۲ [6] مراسیل ص ۵ [7] ابن ابی شیبہ ص ۲۷۰ ج۱ [8] ابن ابی شیبہ ص ۷۰ ج۱ [9] ابن ابی شیبہ ص ۲۷۰ ج۱