کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 124
کَالْجِدَارِ الْمُرْتَفعِ الَّذِیْ یَمْنَعُ الرُّؤْیَۃَ ۔ وَقَدْ صَرَّحَ بِمِثْلِ ہٰذَا الْعِرَاقِی‘‘ اِنْتَہٰی ۔ فَہَلْ قَوْلُ صَاحِب الْمِرْعَاۃِ وَالْعِرَاقِی صَحِیْحٌ جَدِیْرٌ بِالْقَبُوْلِ اَمْ لاَ ؟ وَقَدْ مَالَ الْکِرْمَانِیُّ وَالْعَیْنِیْ اِلٰی اَنَّ غَیْرَ ۔ صِفَۃٌ لِمَوْصُوْفٍ مَحْذُوْفٍ لِیُطَابِقَ الْحَدِیْثُ تَبْوِیْبَ الْبُخَارِیْ فَہَلْ قَوْلُہُمَا صَحِیْحٌ ؟
وَاَیْضًا ہَلْ ثَبَتَ فِی الْحَدِیْثِ اَنَّ الصَّحَابَۃَ کَانُوْا یَرْکُزُوْنَ اَمَامَہُمُ السُتَرَ فِی دَاخِلِ الْمَسَاجِدِ مُہْتَمِّیْنَ بِہٖ بَیِّنُوْا تُوْجَرُوْا عِنْدَ اللّٰہ ِ۔
عبدالرحمن ضیاء مدرس جامعہ شیخ الاسلام
[میں نے ایک ماہ قبل جب آپ سے ملاقات کی تھی تو آپ سے نمازی کے سترہ کے حکم کے متعلق سوال کیا تھا کہ کیا وہ واجب ہے یا مستحب ہے ۔ اور نمازیوں کے آگے مسجد کے اندر اس کو نصب کرنے کا حکم پوچھا تھا تو آپ نے مسند بزار کی روایت کی طرف میری راہنمائی فرمائی تھی وہ روایت جس کو حافظ نے فتح میں ذکر کیا ہے اشارہ کرتے ہوئے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہیں تھا جس طرح شافعی اور بیہقی نے کہا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں پس معلوم ہوا کہ سترہ مستحب ہے لیکن صاحب مرعاۃ نے اپنے اس قول کے ساتھ بزار کی حدیث کا جواب دیا ہے اس میں مطلقاً سترہ کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ اس نے اس سترہ کی نفی مراد لی ہے جو ان کے درمیان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہو اور وہ بلند دیوار کی طرح ہو جو کہ دیکھنے کو مانع ہو اور اسی کی مثل عراقی نے صراحت کی ہے تو کیا صاحب مرعاۃ اور عراقی کا قول صحیح ہے قابل قبول ہے یا نہیں اور کرمانی اور عینی اس طرف مائل ہوئے ہیں کہ لفظ غیر موصوف محذوف کی صفت ہے تاکہ حدیث تبویب بخاری کے مطابق ہو جائے تو کیا ان دونوں کا قول صحیح ہے اور اسی طرح کیا حدیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مساجد کے اندر اپنے سامنے اہتمام سے سترہ لگایا کرتے تھے ؟]
ج: أَمَّا بَعْدُ فَأَنَا بِخَیْرٍ وَعَافِیَۃٍ ۔ قَدْ سَأَلْتَنِیْ عَنْ شَیْئَیْنِ :
اَلْأَوَّلُ : عَنْ قَوْلِ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ : لَیْسَ الْمُرَادُ فِیْہَا نَفْیَ السُّتْرَۃِ مُطْلَقًا ، بَلْ أَرَادَ نَفْیَ السُّتْرَۃِ الخ ہَلْ ہُوَ صَحِیْحٌ جَدِیْرٌ بِالْقَبُوْلِ ؟ الخ
اَلثَّانِیْ : عَنِ الصَّحَابَۃِ ہَلْ کَانُوْا یَرْکُزُوْنَ أَمَامَہُمُ السُّتَرَ فِیْ دَاخِلِ الْمَسَاجِدِ ؟
وَالْجَوَابُ کَمَا یَأْتِیْ بَعْدُ بِتَوْفِیْقِ اللّٰهِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَعَوْنِہٖ ۔
(۱) لَیْسَ بِصَحِیْحٍ ، وَلاَ جَدِیْرٍ بِالقُبُوْلِ إِذْ لاَ دَلِیْلَ عَلَیْہِ ، وَتَبْوِیْبُ الْبُخَارِیِّ ، وَمِیْلاَنُ الْکِرْمَانِیْ وَالْعَیْنِیْ إِلٰی مَا مَا لاَ إِلَیْہِ لَیْسَا مِنَ الْأَدِلَّۃِ فِیْ شَیْئٍ ، وَقَوْلُ بَعْضِہِمْ : فَإِنَّ التَّعَرُّضَ لِنَفْیِ الْجِدَارِ