کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 123
(۲) حسن درجہ کی ہے اگر وہ بھیمۃ(بکری کا بچہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گذرتا تو امام اور مقتدی دونوں کے آگے سے گذرتا اب وہ صرف مقتدیوں کے آگے سے گذرنے والا بنا کچھ مضرت کم ہو گئی ویسے بعض اہل علم اس سے استدلال فرماتے ہیں کہ امام اور مقتدی کے درمیان سے گذرنا درست ہے بہرحال مجھے یہ استدلال صحیح نہیں لگتا ۔ ۵/۶/۱۴۲۰ ھ
س: صورت حال یہ ہے کہ دیر سے آنے والے مقتدی اپنی باقی رکعتیں پوری کر رہے ہیں اور جنہوں نے پوری نماز جماعت کے ساتھ پڑھی ہے وہ ان کے آگے بیٹھے ہوئے ہیں کہ پیچھے والے نماز ختم کریں تو ہم گزر سکیں لیکن امام صاحب آگے بیٹھے ہوئے نمازیوں کے آگے سے گزر جاتے ہیں کیا اس طرح گزرنا گناہ نہیں ہے کیونکہ ساری جماعت کا سترہ امام ہے کیا آگے والے نمازی پیچھے والوں کا سترہ ہیں ۔ اور یہ کہ آدمی نمازی کے آگے سے کتنی جگہ چھوڑ کر گزر سکتا ہے ؟ محمد امجد ولد محمد حنیف میر پور آزاد کشمیر
ج: صورت مسؤلہ میں امام دائیں یا بائیں بیٹھے آدمیوں کے آگے سے گذر سکتا ہے مسبوق نمازیوں کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہو گا کیونکہ پہلی صف میں سلام پھیر کر بیٹھے ہوئے آدمی مسبوقین کا سترہ بن جائیں گے رہا امام کا ساری جماعت مقتدین کا سترہ ہونا تو وہ صرف سلام پھیرنے تک ہے سلام پھیرنے پہ اقتداء ختم ہے اور امام ہونا بھی ختم ہے باقی امام اور مقتدی کو آگے پیچھے امام اور مقتدی کہنا تو وہ اور معنوں میں ہے ۔
رہا آپ کا سوال ’’آدمی نمازی کے آگے سے کتنی جگہ چھوڑ کر گذر سکتا ہے‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کتنی بھی جگہ چھوڑ کر نہیں گذر سکتا سترے والی تمام احادیث اس بات کی دلیل ہیں اگر کوئی حد متعین ہوتی تو سترہ رکھنے رکھوانے کی کیا ضرورت ہے ؟ پتھر پھینکنے جتنی حد والی روایت کمزور ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ واللہ اعلم ۱۸/۷/۱۴۱۹ ھ
س: فَاِنِّیْ قَدْ سَئَلْتُکَ حِیْنَمَا زُرْتُکَ قَبْلَ شَہْرٍ عَنْ حُکْمِ سُتْرَۃِ الْمُصَلِّیْ ہَلْ ہِیَ وَاجِبَۃٌ اَمْ مُسْتَحَبَّۃٌ وَعَنْ حُکْمِ نَصْبِہَا فِیْ دَاخِلِ الْمَسْجِدِ اَمَامَ الْمُصَلِّیْنَ فَقَدْ اَرْشَدْتَّنِیْ اِلٰی رِوَایَۃِ مُسْنَدِ الْبَزَّارِ الَّتِیْ ذَکَرَہَا الْحَافِظُ فِی الْفَتْحِ مُشِیْرًا اِلٰی اَنَّہَا لَمْ تَکُنْ اَمَامَ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کَمَا قَالَ الشَّافِعِیُّ وَالْبَیْہَقِیُّ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ فَعُلِمَ اَنَّہَا مُسْتَحَبَّۃٌ وَلٰکِنَّ صَاحِبَ الْمِرْعَاۃِ اَجَابَ عَنْ حَدِیْثِ الْبَزَّارِ بِقَوْلِہٖ :’’لَیْسَ الْمُرَادُ فِیْہَا نَفْیَ السُّتْرَۃِ مُطْلَقًا بَلْ اَرَادَ نَفْیَ السُّتْرَۃِ الَّتِیْ تَحُوْلُ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہٗ