کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 117
لوگوں کے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو ’’اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ‘‘ کہنے کا کوئی معنی نہیں بنتا کیونکہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینے تھے بہرے تو نہیں تھے انہی روایات میں چڑھنے اترنے کا تذکرہ ہے ان میں وقفہ کی قلت کو بیان کرنا مقصود ہے تحدید وتعیین مراد نہیں ورنہ اذانوں کا تعدد بے فائدہ ہو کر رہ جاتا ہے تاہم جو اہل علم ازروئے تحقیق وتدقیق دیانۃً یہی سمجھتے ہوں کہ واقعی اترنے چڑھنے سے زیادہ وقفہ نہیں تھا وہ اسی پر عمل کر لیں اس سے کوئی پہلی اذان کی نفی تو نہیں ہوتی بلکہ اس سے تو اس کے ثبوت کی تصدیق وتائید ہی ہوتی ہے البتہ ایسے لوگوں کو یہ بات ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ یہ لوگ اذان فجر اور جماعت فجر کا درمیانی وقفہ اتنا ہی رکھتے ہیں جتنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں تھا ؟ اگر یہ وقفہ زیادہ کر لیا گیا ہے تو پھر اذان فجر اور اذان قبل از فجر کے درمیانی وقفہ میں چند منٹ کے اضافہ پر اعتراض کیوں ؟ مقصد یہ نہیں کہ اذان فجر اور جماعت فجر میں وقفہ زیادہ رکھنا کوئی سنت ہے غرض صرف یہ ہے ایسے وقفوں میں چند منٹوں کی کمی بیشی میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ رہا پہلی اذان کا نام ’’اذانِ تہجد‘‘ تو وہ کسی حدیث میں وارد نہیں ہوا یہ نام لوگوں نے از خود تجویز کر لیا ہے جیسا کہ لفظ ’’صلاۃ تراویح‘‘ از خود بنا لیا گیا ہے کتاب وسنت سے یہ نام ثابت نہیں البتہ یہ کام (قیام رمضان ، صلاۃ رمضان ، قیام اللیل ، صلاۃ اللیل اور صلاۃ الوتر) فجر سے پہلے والی اذان کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث کثیرہ کے ساتھ ثابت ہے باقی اس اذان کے ایک جملہ ’’حی علی الصلاۃ‘‘ میں لفظ صلاۃ سے اس کے اذان تہجد ہونے پر استدلال درست نہیں کیونکہ یہ لفظ صلاۃ کوئی نماز تہجد ہی کے ساتھ مخصوص نہیں اس میں تو نماز فجر بھی شامل ہے یا صرف نمازِ فجر ہی مراد ہے یا تمام نمازیں مراد ہیں ۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ اذان صرف رمضان کے ساتھ خاص ہے مگر ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ’’فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا‘‘ اور ’’لاَ یَمْْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ اَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سُحُوْرِہٖ‘‘ کو اس کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ سحری اور اکل وشرب رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی ہوتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم غیر رمضان میں بھی روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے پھر تعجب ہے کہ اس نظریہ کے حامل بعض حضرات رمضان میں بھی اس اذان سے کڑتے ہیں ۔ س: سنن ابو داود میں بَابُ الْأَذَانِ فَوْقَ الْمَنَارَۃِ کے تحت بنی نجار کی ایک عورت سے جو حدیث مروی ہے جس میں اذان سے قبل سیدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل الفاظ یا دعا پڑھنا ثابت ہے ۔﴿اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَحْمَدُکَ