کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 116
ہے آیا وہ تہجد کی اذان ہے یا سحری کھانے کی ہے اگر وہ تہجد کی اذان نہیں تو جو اذان میں حی علی الصلوۃ کے لفظ ہیں ان کا کیا مطلب ہے اگر اس کی تفسیر فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا سے کریں وہ رمضان المبارک کے لیے خاص ہے یا رمضان کے علاوہ بھی دے سکتا ہے ۔
اگر پہلی اذ ان کو تہجد کی اذان تسلیم کر لیں پھر وہ بدعت ہو گی یا عین شریعت کے مطابق صحیح اور درست ہو گی ۔ لہٰذا وضاحت فرمائیں؟ سلیم الرحمن فیصل آباد
ج: آپ اپنے مکتوب گرامی میں سوال کرتے ہوئے لکھتے ہیں آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد کی اذان ثابت ہے ؟ اگر ثابت ہے تو اس کی دلیل الخ
صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن مسعود اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم نیز صحیح مسلم میں حضرت سمرہ بن جندب چار صحابہ رضی اللہ عنہم کی احادیث مرفوعہ صحیحہ کے ساتھ صبح صادق فجر سے پہلے اذان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور آپ کی تقریر سے ثابت ہے۔ [1] ان احادیث سے صرف ایک نیچے درج کی جا رہی ہے باقی آپ خود اصل کتابوں سے ملاحظہ فرما لیں اس مضمون کی احادیث سنن نسائی ، سنن ابی داود ، سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ اور دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہیں ۔
﴿قَالَ الْبُخَارِيُّ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ مَسْلَمَۃَ عَنْ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہ ِصلی للّٰهُ علیہ وسلم قَالَ : اِنَّ بِلاَلاً یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُنَادِیَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ ۔ قَالَ : وَکَانَ رَجُلاً اَعْمٰی لاَ یُنَادِیْ حَتّٰی یُقَالَ لَہٗ : اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ﴾ [2]
[حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ بے شک رات کو بلال اذان دیتے ہیں کہ پس تم کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیں وہ فرماتے ہیں کہ وہ اتنی دیر تک اذان نہ کہتے تھے جب تک کہ یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ تو نے صبح کی ہے تو نے صبح کی ہے ]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول مبارک اس بات میں نص صریح ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ صبح صادق سے قبل رات کو اذان کہا کرتے تھے اس اذان بلال کے بعد ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان تک کھانا پینا درست۔ پھر اس حدیث مبارک سے ان دونوں اذانوں کے درمیان وقفہ کا بھی ثبوت ملا جو ایک کے اترنے اور دوسرے کے چڑھنے میں ہی محدود نہیں تھا ورنہ
[1] صحیح بخاری جلد اول ۔ باب الاذان قبل الفجر ص ۸۷ صحیح مسلم جلد اول ص ۳۵۰
[2] صحیح البخاری ۔ المجلد الاول ۔ باب اذان الاعمی اذا کان لہ من یخبرہ ۔ ص ۸۶