کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 113
رضی اللہ عنہما سے یہی پوچھا تھا جیسا تم نے مجھ سے پوچھا انہوں نے کہا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ آپ کی امت میں سے کسی کو تکلیف نہ ہو]
﴿فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ اَتُعَلِّمُنِیْ بِالسُّنَّۃِ لاَ اُمَّ لَکَ ثُمَّ قَالَ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی للّٰهُ علیہ وسلم جَمَعَ بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ﴾ [1] [عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا تو مجھے سنت سکھاتا ہے تیری ماں مرے۔ پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے جمع کیا ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو]
اچھا ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بغیر خوف سفر اور بارش کے نمازیں جمع کیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کیا ان احادیث سے استدلال کر کے نماز مغرب اور عشاء جمع کی جا سکتی ہے کیونکہ امت کی آسانی کے لیے ہے ۔
دراصل ہم سارا دن کام کرتے ہیں فرنیچر کا اور رات کو اوور ٹائم کام کرنا ہوتا ہے۔ اور ٹائم رات6: 30سے شروع ہوتا ہے اور رات کو 10: 30بجے تقریباً ختم ہوتا ہے ۔ اگر 10: 30بجے نماز عشاء کی پڑھیں تو نیند کا غلبہ ہوتا ہے جب سوتے ہیں تو صبح ۵ بجے جاگتے ہیں اس لیے مذکورہ بالا احادیث سے استدلال کر کے کیا ہم رات ۶ بجے مغرب اور عشاء مسلسل تقریباً 2: 30ماہ تک جمع کر سکتے ہیں؟ محمد افضل قلعہ دیدار سنگھ
ج: آپ نے صحیح مسلم سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک حدیث نقل فرمائی ہے جس میں حضر وامن کے اندر نماز جمع کرنے کا بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری حیات طیبہ میں صرف ایک ہی دفعہ ایسا کیا اور آپ کا عام معمول وہی تھا جو صحیح بخاری صحیح مسلم سنن اربعہ اور دیگر کتب حدیث میں بیان ہوا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس ایک واقعہ میں نمازوں کو جمع فرمانا صرف صورۃً ہی تھا حقیقتاً نہ تھا چنانچہ اسی حدیث کے الفاظ نسائی شریف کی ایک روایت میں اس طرح ہیں﴿عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللّٰہ عنہما قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِالْمَدِیْنَۃِ ثَمَانِیًا جَمِیْعًا وَسَبْعًا جَمِیْعًا اَخَّرَ الظُّہْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَاَخَّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجَّلَ الْعِشَائَ﴾ [2]
[حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں آٹھ رکعات اکٹھی اور سات رکعات اکٹھی پڑھی اور ظہر کو مؤخر کیا اور عصر کو جلدی کیا اور مغرب کو مؤخر کیا اور عشاء کو جلدی کیا] لہٰذا کوئی صاحب کبھی کبھار حضروامن میں ظہر وعصر یا مغرب وعشاء میں سے پہلی کو آخر اور دوسری کو اول وقت پر
[1] صحیح مسلم صلاۃ المسافرین ۔ باب الجمع بین الصلاتیں فی الحضر
[2] باب الوقت الذی یجمع فیہ المقیم ۔ المجلد الاول ص ۶۹