کتاب: احکام و مسائل جلد اول - صفحہ 112
مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :﴿لَیْسَ فِی النَّوْمِ تَفْریْطٌ إِنَّمَا التَّفْرِیْطُ فِی الْیَقَظَۃِ، فَإِذَا نَسِیَ أَحَدُکُمْ صَلاۃً أَوْ نَامَ عَنْہَا فَلْیُصَلِّہَا إِذَا ذَکَرَہَا فَإِنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی قَالَ : وَأَقِمِ الصَّلاَۃَ لِذِکْرِیْ[1] [نیند میں کوتاہی نہیں کوتاہی صرف بیداری میں ہے پس جب تم میں سے ایک نماز بھول جائے یا نماز سے سو جائے پس نماز پڑھے جب اس کو یاد آئے بے شک اللہ نے فرمایا ہے کہ میری یاد کے لیے نماز پڑھو] غزوئہ احزاب کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عصر اور مغرب دو نمازیں رہ گئی تھیں عشاء کا وقت ہو چکا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عصر پڑھی پھر مغرب پھر عشاء ۔ فجر کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیے اسی طرح عصر کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیے ۔ یہ نفل نماز کے متعلق ہے نفل نماز بھی وہ جو بلا کسی وجہ وسبب پڑھی جائے وہ ان اوقات میں ممنوع ہے لہٰذا دونوں حدیثوں میں کوئی منافات وتعارض نہیں ہے ۔ ۶/۱۲/۱۴۱۹ ھ س: سخت بارش اور طوفانی موسم میں اگر مغرب اور عشاء کی دونوں نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا مقصود ہو تو کیا طریقہ ہے دونوں نمازوں کی سنتوں کی ادائیگی ضروری ہے یا نہیں ؟ اگر موسم کی شدت کئی دنوں پر حاوی ہو جائے تو نمازوں کا جمع کرنا کہاں تک ہے ؟محمد صدیق مان لالہ موسیٰ11فروری 1992 ج: بوجہ بارش اگر کوئی نمازیں جمع کرنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ مغرب آخر وقت میں اور عشاء اول وقت پڑھے اسی طرح ظہر آخر وقت اور عصر اول وقت میں ادا کرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں جو نمازیں جمع کر کے پڑھی تھیں ان کی صورت یہی تھی جیسا کہ سنن نسائی بابُ الْوَقْتِ الَّذِيْ یَجْمَعُ فِیْہِ الْمُقِیْمُ میں وضاحت موجود ہے باقی اس رعایت ورخصت کی حد میرے علم میں نہیں رہا سنن رواتب کا معاملہ جمع کی صورت میں تو ان کی حیثیت وہی ہے جو عدم جمع کی صورت میں ہے ۔ ہذا ما عندی واﷲ اعلم ۱۱/۸/۱۴۱۲ ھ س: ﴿عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضی اللّٰهُ عنہما قَالَ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی للّٰهُ علیہ وسلم اَلظُّہْرَ وَالْعَصْرَ جَمِیْعًا بِالْمَدِیْنَۃِ فِيْ غَیْرِ خَوْفٍ وَلاَ سَفَرٍ قَالَ اَبُو الزُّبَیْرِ فَسَأَلْتُ سَعِیْدًا لِمَ فَعَلَ ذٰلِکَ فَقَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضی اللّٰهُ عنہما کَمَا سَأَلْتَنِیْ فَقَالَ اَرَادَ اَنْ لاَّ یُحْرِجَ اَحَدًا مِنْ اُمَّتِہٖ[2] [عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کی نماز مدینہ میں بغیر خوف اور سفر کے ملا کر پڑھی ۔ ابو الزبیر نے کہا کہ میں نے سعید سے پوچھا کہ آپ نے کیوں ایسا کیا ؟ انہوں نے کہا میں نے عبداللہ بن عباس
[1] [صحیح مسلم ۔ کتاب المساجد باب قضاء الصلوۃ الفائتۃ] [2] صحیح مسلم [کتاب صلوۃ المسافرین ۔ باب جواز الجمع بین الصلوتین فی الحضر]