کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 98
یقبل منہ لانہ لم یلحق و احدا منھما الا ان یسمی بینہ و بینھما و یکون ثقۃ ‘‘ (مناقب الشافعی للبیھقی ج ۲ ص ۲۰) ابراہیم کے بارے میں ہمارا اصل قول یہ ہے کہ وہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت کریں تو قبول نہیں کی جائے گی،کیوں کہ وہ ان دونوں میں سے کسی سے بھی نہیں ملے۔الا یہ کہ جب وہ اپنے اور ان کے مابین راوی کا نام لیں اور وہ راوی ثقہ ہو۔‘‘ ان کا یہ کلام ’’کتاب الام‘‘ (ج ۱ ص ۹۱۔۹۲) میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ابن ابی شیبہ میں ہے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں:فی بیض النعام قیمۃ،ابن دقیق العید فرماتے ہیں : ابراہیم عن عمر منقطع،(نصب الرایہ ج ۳ ص ۱۳۵) اور ایک اثر ابراہیم عن عمر سے نقل کرنے کے بعد علامہ زیلعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فیہ انقطاع بین ابراہیم و عمر(نصب الرایۃ ج ۲ ص ۲۶۸) حافظ ابن حجر نے بھی متعدد مقامات پر ابراہیم کے ارسال پر نقد کیا ہے۔ملاحظہ ہو فتح الباری جلد ۴ صفحہ ۱۷۵ جلد ۹ صفحہ۶۰،۴۸۱ جلد۱۳ صفحہ ۲۷۱۔لہٰذا یہ کہنا کہ ’’ابراہیم نخعی کی مراسیل بجز دو روایات کے سب مقبول ہیں ‘‘ صحیح نہیں۔ حماد بن ابی سلیمان رحمہ اللہ کے واسطے سے بیان ہونے والی روایت قابل تحقیق ہے مرسل ہونے کے علاوہ یہ روایت حماد بن سلمہ عن حماد بن ابی سلیمان کے واسطے سے مذکور ہے۔اسی سند سے علامہ طحاوی رحمہ اللہ کے علاوہ علامہ ابن حزم نے ’’المحلی‘‘ (ج۱۰ ص ۲۹۷) میں بھی ذکر کیا ہے۔اس کے مرکزی راوی حماد بن ابی سلیمان کو آخر عمر میں اختلاط و تغیر کا عارضہ لاحق ہو گیاتھا،لہٰذا ان کے قدیم شاگردوں کی روایات ہی ان سے صحیح ہیں،چنانچہ علامہ ہیثمی رقم طراز ہیں : ’’ لا یقبل من حدیث حماد الا ما رواہ عنہ القدماء شعبۃ و سفیان الثوری والدستوائی و من عدا ھؤلاء رووہ عنہ بعد