کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 97
تو اس پر بھی انھوں نے بڑی شرح و بسط سے ’’زاد المعاد‘‘ میں بحث کی ہے،امام دارقطنی رحمہ اللہ کا تو خیال ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول میں ’’ سُنّۃ نبیّنا‘‘ کا جملہ شاذ ہے،حفاظ حدیث عموماً اس کا ذکر نہیں کرتے،اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ولعل عمر اراد بسنۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما دلت علیہ احکامہ من اتباع کتاب اللّٰہ لا انہ اراد سنۃ مخصوصۃ فی ھذا‘‘ ’’غالباً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سنت نبوی سے مقصد کتاب اﷲ کا اتباع ہے کہ آپ کے احکام و فیصلہ عموماً اس پر ہوتے تھے،یہ نہیں کہ اس بارے میں کوئی مخصوص سنت آپ کی مراد تھی۔‘‘(فتح الباری ص ۴۸۱ ج ۹) لہٰذا اس روایت کے مرفوع ہونے کا انکار تنہا صاحب تنقید الہدایہ اور مولیٰنا محمد یوسف جے پوری مرحوم ہی نے نہیں کیا بلکہ امام احمد وغیرہ نے بھی اسے بے اصل اور محض باطل قرار دیا ہے۔ کیا مراسیل نخعی حجت ہیں ؟ طحاوی کی اس روایت کے بارے میں بعض علمائے احناف نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ مرسل ہے اور ابراہیم نخعی کی مراسیل بجز دو احادیث کے تمام صحیح ہیں۔جیسا کہ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے لیکن یہ بھی صحیح نہیں،علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ انہ اذا ارسل عن ابن مسعود وغیرہٖ فلیس ذٰلک بحجۃ ‘‘ (میزان :۷۵ ج ۱) ’’جب ابراہیم نخعی رحمہ اللہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ سے مرسل بیان کریں تو وہ حجت نہیں ہیں۔‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی ان کی مراسیل پر کلا م کیا ہے،چنانچہ لکھتے ہیں : ’’ واصل قولنا ان ابراہیم لو روی عن علی و عبد اللّٰہ لم