کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 95
اس میں صرف ’’حفظت او نسیت‘‘ کے الفاظ ہیں۔اور ظاہر ہے کہ نسیان سے کوئی انسان بھی محفوظ نہیں۔ان الفاظ میں جلیل القدر صحابیہ کی عدالت و عظمت پر کوئی حرف نہیں آتا۔برعکس ان الفاط کے جنھیں صاحب ہدایہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف بلا سند منسوب کیا ہے۔ اور جہاں تک طحاوی کی اس روایت کا تعلق ہے تو وہ بھی صحیح نہیں۔اس کا انکار ’’تنقید الہدایہ‘‘ اور ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ ہی میں نہیں کیا گیا،بلکہ امام احمد وغیرہ نے بھی اسے بے اصل قرار دیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ردہ ابن السمعانی بانہ من قول بعض المجازفین فلا تحل روایتہ و قد انکرہ احمد ثبوت ذلک عن عمر اصلاً و لعلہ اراد ما ورد من طریق ابراہیم النخعی عن عمر لکونہ لم یلقہ‘‘ (فتح الباری ج ۹ ص ۴۸۱) ’’اسے ابن سمعانی نے رد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بعض بے تکی ہانکنے والوں کا قول ہے۔پس اس کی روایت جائز نہیں ہے اور امام احمد رحمہ اللہ نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے ثبوت کا انکار کیا ہے اور غالباً ان کا مقصد وہ روایت ہے جو ابراہیم عن عمر کے طریق سے منقول ہے۔کیوں کہ ابراہیم کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہی نہیں۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے علامہ طحاوی رحمہ اللہ کے اس جملہ سے استدلال کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ: [1]
[1] وہ صحابیہ جو ’’المھاجرات الاولی‘‘ میں شمار ہوتی ہیں،جن کا نکاح آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے اسامہ بن زید سے کیا،ابن عبدالبر فرماتے ہیں : کانت ذات جمال و عقل شہادت عمر فاروق کے بعد اصحاب شوریٰ کا اجتماع انہی کے گھر میں ہوا۔حدیث دجال کی مفصل روایت کی وہ راویہ ہیں،جسے ایک ہی بار سن کر انھوں نے یاد کر لیا۔وہ روایت تو یاد مگر اپنے بارے میں وہ نسیان کا شکار۔ایں چہ بوالعجبی است!