کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 90
بھی ہیں،ان سے صرف نظر کرکے روایت نقل کر دینا کم از کم ’’کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع‘‘ کا مصداق ہے۔
سبط ابن الجوزی
اس کی سند تو کجا خود سبط ابن الجوزی المتوفی ۶۵۴ھ کو ن اور کیسے ہیں ؟ اور اہل علم نے ان کے بارے میں کیا اظہار خیال فرمایا ہے؟ سنیے: یہ صاحب پہلے حنبلی تھے۔الملک المعظم جیسے غالی حنفی بادشاہ سے مصاحبت کی بنا پر حنفی مسلک اختیا رکیا۔ان کی تصنیف ’’مناقب ابی حنیفہ ‘‘ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اس کے بعد پھر پلٹا کھایا تو رافضی بن گئے۔(اعاذنا اللّٰہ منہ ) محی الدین السنوسی فرماتے ہیں کہ:
’’میرے دادا جان کو جب اس کی خبر وفات پہنچی تو انھوں نے فرمایا:’’ لا رحمہ اللّٰہ کان رافضیا ‘‘وہ رافضی تھا،اﷲ تعالیٰ اس پر رحمت نہ فرمائے۔‘‘
وعظ و ارشاد کا بڑا حلقہ تھا،صاحب علم وفضل تھے۔’’ مراٰۃ الزمان‘‘ ان کی مشہور تصنیف ہے مگر علامہ ذہبی لکھتے ہیں :
’’ فتراہ یاتی بمناکیر الحکایات و ما اظنہ بثقۃ فیما ینقلہ بل یجنف و یجازف ثم انہ ترفض ولہ مؤلف فی ذلک نسأل اللّٰہ العافیۃ‘‘
’’تم دیکھو گے کہ وہ اس میں منکر حکایات لاتا ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ جو کچھ نقل کرتا ہے اس میں وہ ثقہ نہیں بلکہ وہ حق و صداقت سے انحراف کرتا ہے اور بے تکی باتیں کرتا ہے،پھر رافضی بن گیا،اس میں اس کی ایک کتاب بھی ہے،ہم اﷲ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔‘‘(میزان الاعتدال ص ۴۷۱ ج ۴)
لیجیے! یہ ہے حقیقت سبط ابن الجوزی کی،پھر اس کی سند بجائے خود مسئلہ ہے،مولانا سردار احمد صاحب شاید ان حقائق سے واقف نہیں،اس لیے وہ اس پر قناعت کیے بیٹھے ہیں کہ سبط ابن الجوزی نے اسے ذکر کر دیا ہے۔بس یہ موضوع نہ رہی۔(سبحان اللّٰہ)