کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 89
کلام نہیں ہے۔‘‘ مگر مولانا سردار صاحب لکھتے ہیں : ’’حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نےاس بارے میں ’’لم اجدہ‘‘فرمایا ہے لیکن ان کے عدم وجدان سے موضوع ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے۔حاشیہ ہدایہ میں ہے کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً موقوفاً مروی ہے جسے سبط ابن الجوزی نے’’الا نکاح‘‘کے لفظ سے روایت کیا ہے۔‘‘( بینات ص ۲۶) یہاں بھی اولاً وہی بہانہ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ’’لم اجدہ ‘‘ کہنے سے اس کا موضوع ہونا ثابت نہیں ہوتا،مگر یہ محض اصول سے بے خبری یا پھر تجاہل عارفانہ ہے۔جیسا کہ ہم پہلے بالوضاحت عرض کر آئے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے علاوہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ حنفی نے بھی نصب الرایہ (ص ۱۹۵ ج ۲)میں اسے غریب کہہ کر اس کے بے اصل ہونے کا اشارہ کر دیا ہے۔ مولانا سردار احمد صاحب کی ہوشیاری دیکھیے،فرماتے ہیں : کہ ’’حاشیہ ہدایہ ‘‘ میں ہے کہ اسے سبط ابن الجوزی نے ذکر کیا ہے‘‘ مگر ان کی دیانت اور ہوشیاری کی داد دیجیے کہ ا س کے متصل بعد ہدایہ کے حاشیہ میں مولانا لکھنوی رحمہ اللہ نے جو کچھ نقل کیا ہے اسے وہ شیر مادر سمجھ کر پی گئے ہیں۔چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے البنایہ (ص ۹۳ ج ۵) اور انہی کے حوالہ سے علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ : ’’ذکرھذا الحدیث السرخسی و سبط ابن الجوزی و لم یخرجہ احد من الجماعۃ ولا یثبت‘‘ ’’اس حدیث کو سرخسی اور سبط ابن الجوزی نے ذکر کیا ہے اور کسی نے اس کی تخریج نہیں کی اور نہ یہ ثابت ہے۔‘‘ بتلائیے! اس وضاحت کے بعد حاشیہ ہدایہ کے حوالہ کاکیا فائدہ ؟ چلیے! تسلیم کیا کہ سبط ابن الجوزی نے اسے ذکر کیا ہے۔مگر اس کی سند کیا ہے ؟ اور اس کی پوزیشن کیسی ہے ؟ جنا ب محترم! حدیث دانی محض نقل روایت کا نام نہیں،اس کے کچھ شروط و قیود