کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 87
تو بدائع الصنائع میں بھی موجود ہے۔‘‘ حالانکہ بدائع الصنائع کے مصنف صاحب ہدایہ ہی کے معاصر ہیں۔ اول الذکر کا سن وفات ۵۸۷ھ اور صاحب ہدایہ رحمہ اللہ کا ۵۹۳ ھ۔لہٰذا ان کا حوالہ بے سود ہے۔پھر علامہ کاسانی رحمہ اللہ پر کیا موقوف اسے تو علامہ سرخسی نے بھی ’’المبسوط ‘‘ (ص ۲۰۱ ج ۴) میں ذکر کیا ہے اور علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی ہدایہ کی شرح البنایہ میں ان کا حوالہ ذکر کیا ہے،’’المبسوط‘‘ میں بھی کوئی روایت بالاسناد نہیں،ان کا شمار فقہاء میں ہوتا ہے،محدثین میں نہیں،افسوس کہ مولانا سردار صاحب نے حدیث مذکور کے مستند ہونے کے لیے بدائع الصنائع کا حوالہ دے کر بریلوی تکنیک اختیار کی ہے،ان سے بھی جب ان کی کسی حدیث کی بابت (جس پر ان کے استدلال کی بنیاد ہوتی ہے) استفسار کیا جاتا ہے تو وہ کسی حدیث کی کتاب جہاں سے اس کی سند دیکھی جا سکے کا حوالہ دینے کی بجائے متاخرین کی ان کتابوں کا حوالہ دینا شروع کر دیتے ہیں جن میں وہ حدیث بغیر کسی سند کے نقل ہوتی چلی آئی ہے۔ کیا ہدایہ کی احادیث بالمعنی ہیں ؟ نیز یہ بھی خوب کہا ہے کہ:’’صاحب ہدایہ نے روایت بالمعنی کی ہوگی‘‘ کاش! استاد جی سے ہی دریافت کرلیا ہوتا کہ دوسری احادیث کے مفہوم و مقصد کو پیش نظر رکھ کر خوبصورت الفاظ بنا کر انھیں رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی طرف منسوب کردینے کو روایت بالمعنی کہتے ہیں ؟ اور کیا ایسے الفاظ کو حدیث باور کر لیا جائے گا؟ روایت بالمعنی بلاشبہ سلف و خلف کے نزدیک جائز ہے مگر اس کا تعلق روایت کے بیان و ادائے الفاظ سے ہے،لیکن کتب مصنفہ سے کسی روایت کو بالمعنی نقل کرنا اور بات ہے،اس کی تو اجازت قطعاً نہیں۔علامہ نووی رحمہ اللہ نے صاف صاف لکھا ہے: ’’ ولا یجوز تغییر المصنف و ان کان بمعناہ‘‘ کہ تصنیف شدہ کتاب کے الفاظ کو بدلنا جائز نہیں اگرچہ بالمعنی ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ (تقریب مع التدریب ص ۳۱۴)