کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 86
’’کہ یہ حدیث کی کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی،مجھے معلوم نہیں انھوں نے اسے کہاں سے نقل کیا ہے۔‘‘ (حقیقۃ الفقہ ص ۱۵۳ ط بمبئی) مولانا سردار احمد صاحب کوشکوہ ہے کہ صاحب حقیقۃ الفقہ نے اسے ’’موضوع‘‘ کیوں قرار دیا ہے،یہ حدیث بدائع الصنائع میں بھی موجود ہے لہٰذا اس کی اصل متقدمین کی کسی نہ کسی کتاب میں ضرور پائی جاتی ہے۔پھر کبھی بعض موقع پر صاحب ہدایہ روایت بالمعنی بھی کر دیتے ہیں۔(بینات :ص ۲۴۔۲۵) حالانکہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے نصب الرایہ (ص ۱۶۸ ج ۳) میں اسے غریب کہا ہے اور وہ یہ لفظ ایسی روایت کے متعلق استعمال کرتے ہیں جو انھیں کہیں نہ ملے جیساکہ ہم پہلے منیۃ الالمعی ص ۹ کے حوالہ سے ذکر کر آئے ہیں۔[1] اسی روایت کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’ لم اجدہ ‘‘ (الدرایۃ ص ۵۵ ج ۲)اسی طرح علامہ عینی رحمہ اللہ نے البنایہ (ص ۲۶ ج ۵) میں اور انہی کے حوالہ سے مولیٰنا لکھنوی مرحوم نے حاشیہ ہدایہ میں صراحت کی ہے۔ ’’ھذا حدیث غریب لم یتعرض لہ احد من الشراح‘‘ ’’ یہ حدیث غریب ہے،ہدایہ کے کسی شارح نے اس سے تعرض نہیں کیا۔‘‘ علامہ زیلعی رحمہ اللہ وغیرہ کے اس فیصلہ کے مطابق اصول کا تقاضا یہی ہے کہ ان الفاظ سے یہ روایت بے اصل اور موضوع سمجھی جائے۔بلاشبہ نکاح میں دو بہنوں کے اجتماع کے بارے میں صحیح ترین احادیث موجود ہیں جن کا ذکر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے کیا ہے مگر وہ الفاظ جنھیں صاحب ہدایہ نے بطور دلیل حدیث رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کہہ کر پیش کیا ہے اس کی کوئی صحیح تو کجا ضعیف بلکہ موضوع سند بھی موجود نہیں۔یہ طرفگی بھی کیا خوب ہے کہ ’’یہ
[1] مگر افسوس کہ مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’بخاری کی پہلی اور آخری حدیث غریب ہے۔لہٰذا ہدایہ کی غریب احادیث پر پریشان نہیں ہو نا چاہیے۔(لامع الدراری ص ۴۰۶ ج ۱۰) سبحان اللّٰہ۔ فان کنت لا تدری فتلک مصیبۃ و ان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم