کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 85
اجدہ کہا ہے۔اگر ان پر کسی محقق عالم نے تعاقب نہیں کیا تو ان کے موضوع اور بے اصل ہونے کے لیے یہ کافی دلیل ہے۔یہ حکم صرف ہدایہ کے لیے نہیں بلکہ فقہائے کرام کی عموماً ذکر کردہ روایات کے بارے میں اہل علم کی یہی رائے ہے۔جیساکہ پہلے گزر چکا ہے۔اس لیے اگر’’ تنقید الہدایہ ‘‘ اور’’حقیقۃ الفقہ‘‘ میں ہدایہ کی روایات کو موضوع قرار دیا گیا ہے تو یہ عین اصول کے مطابق ہے۔مولانا سردار احمد صاحب اور ان کے پیش رو بزرگ اس ضابطہ سے بے خبر ہیں تواس میں کسی اور کا کیا قصور ہے۔کم از کم مولانا نعمانی رحمہ اللہ جیسے وسیع النظر بزرگ سے ایسی بے ضابطی کی توقع نہ تھی لیکن عصبیت اور تحزب کا بھوت جب دل و دماغ پر چھا جائے تو وہ صحیح اور مبنی بر حقیقت بات کو قبول کرنے نہیں دیتا اور نت نئے حیلے تراشنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہدایہ کی بے اصل روایات کا دفاع اور اس کی حقیقت اب آئیے! ان روایات کے دفاع کی پوزیشن ملاحظہ فرمائیے جنھیں مولانا محمد یوسف جے پوری مرحوم نے ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ میں ’’ تنقید الہدایہ‘‘ کے حوالہ سے موضوع اور بے اصل قرار دیا ہے۔جن کے بارے میں ’’بینات کے مضمون نگار کا خیال ہے کہ یہ الزام درست نہیں ہے۔ان روایات کی اصل موجود ہے۔ پہلی روایت چنانچہ اس سلسلے میں ہدایہ ’’کتاب النکاح‘‘ کی ’’فصل بیان المحرمات‘‘ میں دو بہنوں سے نکاح کی حرمت بیان کرتے ہوئے قرآن پاک کے علاوہ جس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے اس کے الفاظ انھوں نے یوں نقل کیے ہیں : ’’ ولقولہ علیہ السلام من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الاٰخر فلا یجمعن ماء ہ فی رحم اختین‘‘ (ہدایہ ص ۳۰۸ ج ۱) صاحب ہدایہ نے یہاں جن الفاظ کو رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے انہی کے بارے میں مولانا جے پوری مرحوم نے نقل کیا ہے: ’’لم یوجد فی شیء من کتب الحدیث ولا ادری من این جاء ‘‘