کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 84
الحکم علیہ بالوضع‘‘ (تنزیہ الشریعۃ اس سے ہمیں یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ (علامہ علائی رحمہ اللہ نے) جن حفاظ کا ذکر کیا ہے یا ان جیسے دوسرے حفاظ حدیث ہیں ان میں سے جب کوئی کسی حدیث کے بارے میں کہہ دے کہ ’’لا اعرفہ ‘‘یا ’’لا اصل لہ‘‘ تواس کے موضوع ہونے کے لیے کافی ہے۔‘‘ علامہ ابن عراق کا یہی کلام شیخ ابوغدہ حنفی نے المصنوع کے مقدمہ (ص ۹۔۱۰) میں بھی نقل کیا ہے اور اس سلسلے میں جن حفاظ حدیث کے فیصلے پر اعتماد و اطمینان کا اظہار کیا ہے ان میں علامہ المقدسی،ابن تیمیہ،ابن الصلاح،المزی،ذہبی،ابن کثیر،عراقی ابن الملقن رحمہم اﷲکے ساتھ ساتھ علامہ زیلعی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا بھی نام لیا ہے،البتہ انھوں نے اس کے ساتھ یہ اضافہ بھی کیا ہے۔ ’’ ولم یتعقبہ احد من الحفاظ‘‘ ’’کہ اس کے بعد حفاظ حدیث میں سے کسی نے اس پر تعاقب نہیں کیا ہے۔‘‘ یہی بات انھوں نے ’’المصنوع‘‘ (ص ۱۹۔۲۰) کے حواشی میں اور لمحات من تاریخ السنۃ ص ۲۴۴ میں کہی ہے۔ظاہر ہے کہ اس بات کا اضافہ بھی ہونا چاہیے کہ ایک انسان کی معلومات بہرحال محدود ہی ہوتی ہیں خواہ وہ علم کے بلند ترین مقام پر فائز ہو۔﴿ وَ فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ ﴾ کاارشاد ربانی بھی اسی کا مؤید ہے اور ’’ کم ترک اولون للاخرین‘‘ کاجملہ بھی اہل علم کے ہاں معروف ہے۔ لہٰذا اگر ان اکابر محدثین میں سے جب کوئی محدث کسی روایت کے بارے میں لا اعرف،لم اجدہ،لا اصل لہ،لا یعلم من اخرجہ،لم اقف علیہ جیسے الفاظ کہے اور کسی محدث نے اس پر تعاقب نہ کیا ہو اور اس کی رائے کے برعکس اس کی سند یا صحت کو واضح نہ کیا ہو تو وہ روایت بلاشبہ موضوع اور بے اصل قرار پائے گی۔بنا بریں ہدایہ کی وہ روایات جن کے بارے میں علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے غریب،یا غریب جدا اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لم