کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 83
اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اسی سے ملتی جلتی بات علامہ ابن عراق رحمہ اللہ نے تنزیہ الشریعہ (ص ۷۔۸ ج ۱) میں امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ سے نقل کی ہے۔امام رازی رحمہ اللہ کا یہ کلام ’’ المحصول من علم اصول الفقہ ‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔شیخ ابوغدہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔امام رازی نے دراصل یہ کلام معمولی تصرف سے قاضی ابوالحسین رحمہ اللہ البصری المتوفی ۴۳۶ھ کی المعتمد فی اصول الفقہ (ص ۷۹ ج ۲) سے نقل کیا ہے اور اسی کے ساتھ خود شیخ ابوغدہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’واما بعد استقرار الاخبار فلو ذکر احد حدیثا بدون السند ولم یوجد فی دواوین الحدیث ولا عند رواۃ الحدیث الثقات فھذا یحکم علیہ بالوضع عند الامام الرازی و من تبعہ‘‘(حاشیہ لمحات من تاریخ السنۃ ص ۲۴۳)‘‘ ’’اور احادیث کا کتب احادیث میں ثابت و مدون ہونے کے بعد اگر کوئی بغیر سند کے حدیث ذکر کرے اور وہ ذخیرہ حدیث نہ پائی جائے اور نہ ہی وہ حدیث ثقہ راویوں کے پاس ہو تو امام رازی وغیرہ کے نزدیک ایسی حدیث پرموضوع ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔‘‘ علامہ ابن عراق نے حافظ العلائی کے حوالہ سے لکھا ہے: ’’حفاظ حدیث مثلاً امام احمد رحمہ اللہ،امام علی بن مدینی رحمہ اللہ،امام ابن معین رحمہ اللہ،امام بخاری رحمہ اللہ،امام ابوحاتم رحمہ اللہ،امام ابوزرعہ رحمہ اللہ،امام نسائی رحمہ اللہ امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ جیسے نقاد حدیث جب کسی روایت کے بارے میں کہہ دیں کہ یہ روایت ہم نے نہیں دیکھی تو وہ روایت موضوع اور بے اصل ہوگی۔‘‘ اس کے بعد علامہ ابن عراق لکھتے ہیں : ’’فاستفدنا من ھذا ان الحفاظ الذین ذکرھم و اضرابھم اذا قال احدھم فی حدیث لا اعرفہ او لا اصل لہ کفی ذلک فی