کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 82
’’ہدایہ کی تخریج کرنے والوں نے اگر اپنے علم کی بنا پر ’’ لم اجدہ‘‘ فرمایا ہے تواس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ حدیث سرے سے جعلی ہے۔‘‘ اسی قاعدہ کے نتیجہ میں جو کچھ کہا گیا،اس کی حقیقت معلوم کرلینے کے بعد اب ذرا اس ’’اصول‘‘ کی بے اصولی بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔علامہ سیوطی رحمہ اللہ ’’ تدریب الراوی‘‘ میں بائیسویں نوع کے تحت لکھتے ہیں : ’’ اذا قال الحافظ المطلع الناقد فی حدیث لا اعرفہ اعتمد ذلک فی نفیہ کما ذکر شیخ الاسلام‘‘ (تدریب الراوی ص ۱۹۵) ’’جب حافظ باخبر ناقد کسی حدیث کے بارے میں کہے کہ میں اسے نہیں جانتا تواس کی اس نفی پر اعتماد کیا جا ئے گا جیسا کہ شیخ الاسلام ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔‘‘ اسی قاعدہ پر بحث کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ چند سطور کے بعد لکھتے ہیں : دور تدوین حدیث سے پہلے تو بعض رواۃ کے پاس ایسی روایات تھیں جو حفاظ کے پاس نہ تھیں : ’’ و اما بعد التدوین والرجوع الی الکتب المصنفۃ فیبعد عدم الاطلاع من الحافظ الجھبذ علی ما یوردہ غیرہ فالظاھر عدمہ ‘‘ (تدریب ص ۱۹۵) ’’مگر تدوین حدیث کے بعد اور کتب مصنفہ کی مراجعت کے بعد کسی ناقد حافظ کا کسی ذکر کردہ روایت پر مطلع نہ ہونا بعید ہے پس ظاہر یہی ہے کہ وہ روایت نہیں ہے۔‘‘ یہ اس لیے کہ احادیث کا تمام تر ذخیرہ کتب احادیث میں محفوظ ہو چکا ہے اور اسی بنا پر امام بیہقی رحمہ اللہ نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے: ’’ فمن جاء الیوم بحدیث لا یوجد عند جمیعھم لا یقبل منہ‘‘ (ابن الصلاح ص ۱۰۹) ’’کہ آج اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرتا ہے جو محدثین کی کتابوں میں نہیں تو