کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 81
ہم اس سلسلے میں ان کی طول بیانی سے صرف نظر کرتے ہیں البتہ اس غلط فہمی کے بارے میں عرض ہے کہ : اولاً:تو یہ عبارت ہی حضرت موصوف کے تعصب کی منہ بولتی دلیل ہے جب کہ ہدایہ کی روایات کے بارے میں انھیں یقین نہیں کہ اس میں موضوع اور جعلی روایات بھی ہیں۔اس لیے لکھتے ہیں :’’فرض کر لیجیے‘‘۔۔’’اگر یہ ہیں تو۔۔۔‘‘ لیکن کتب احادیث کے متعلق بڑے وثوق سے فرماتے ہیں کہ :’’ ان میں بھی سینکڑوں ہزاروں حدیثیں ضعیف بلکہ خالص من گھڑت بھی موجود ہیں‘‘ ثانیاً: محدثین کرام رحمہم اﷲ نے اپنی تصنیفات میں متن سے پہلے سند کا اہتمام فرمایا ہے جس سے اس روایت کی حیثیت معلوم کی جا سکتی ہے۔سند بیان کرکے انھوں نے گویا پوری دنیا کو تحقیق کی دعوت دی ہے جو چاہے آزما لے۔ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ اکثر المحدثین فی الاعصار الماضیۃ من سنۃ مائتین وھلم جرا اذا ساقوا الحدیث باسنادہ اعتقدوا انھم برء وا من عھدتہ و اللّٰہ اعلم ‘‘(لسان المیزان ص ۷۵ ج ۳) ’’اکثر محدثین زمانہ ماضی میں دو سو سال سے اور اس کے بعد سے جب حدیث کو سند سے بیان کر دیتے ہیں تو وہ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ ہم سے اس کی ذمہ داری ختم ہو گئی ہے۔‘‘ لیکن ہدایہ اور دیگر کتب فقہ میں تو سند کا قطعاً اہتمام نہیں بلکہ ان کے مصنفین کے نزدیک تو گویا یہ’’ شجر ممنوعہ ‘‘ہے لہٰذا کتب حدیث اور کتب فقہ کے مابین بعد المشرقین ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ’’چہ نسبت خاک را باعالم پاک‘‘۔ ائمہ فن کا لم اجدہ کہنے کا مطلب مولانا نعمانی رحمہ اللہ اور ان کی تقلید میں شاگرد رشید نے فرمایا ہے کہ :