کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 80
سبیل المؤمنین ‘‘(حجۃ اللّٰہ البالغۃ ص ۱۳۴ ج ۱) ’’صحیح بخاری ومسلم کے متعلق محدثین کا اتفاق ہے کہ ان میں جو مرفوع متصل روایات ہیں وہ قطعی طورپر صحیح ہیں۔اور یہ دونوں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں اور جو بھی ان دونوں کی توہین کرتا ہے،وہ بدعتی ہے اور مومنوں کے راستے کے علاوہ کسی دوسرے راستے کا پیروکار ہے۔‘‘ صحیحین کی روایات کی صحت اور قطعیت کی بحث وسیع الذیل ہے۔ہم نے یہاں اختصار کے پیش نظر یہ بتلانے کی کوشش کی ہے کہ بخاری شریف کی مسند روایات صحیح اور مقطوع بالصحت ہیں البتہ امام ابن الصلاح نے اس حکم سے ان معدودے چند روایات کو مستثنیٰ قرار دیا ہے،جن پر امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے اعتراض کیا ہے۔الغرض صحیح بخاری کی روایات کو ’’نص قطعی ‘‘ آج تنہا اہل حدیث ہی قرار نہیں دیتے بلکہ تمام محدثین کا یہی فیصلہ ہے،جیسا کہ شاہ ولی اﷲ اور امام الحرمین رحمہ اللہ وغیرہ سے ہم نقل کر آئے ہیں۔مولیٰنا سردار احمد صاحب اور بعض دیگر علمائے احناف کو اگر صحیح بخاری کی قطعیت پر اعتراض ہے تو یہ محض ان کے ذہنی تحفظات اور مسلکی عصبیت کا نتیجہ ہے۔جس کا علاج ہمارے پاس نہیں۔البتہ اتنا کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کی یہ روش بقول شاہ ولی اﷲ سبیل المؤمنین سے مختلف ہے اور مبتدعین سے ہم آہنگ ہے۔(اعاذنا اللّٰہ منہ) ایک اور بزرگ کی غلط فہمی،ہدایہ کا کتب صحاح سے مقابلہ اسی سلسلے میں ایک اور حنفی بزرگ مولانا سرفراز صاحب صفدر فرماتے ہیں کہ: ’’ اگر ہدایہ کی پوزیشن اس لیے مخدوش ہے کہ اس میں بے اصل اور فرض کیجیے،معلول بلکہ موضوع اور جعلی حدیثیں بھی درج ہیں تو صحیحین کے علاوہ باقی حدیث کی تمام کتابوں سے ہاتھ دھو ڈالنا چاہیے بلکہ ان میں بھی سینکڑوں،ہزاروں حدیثیں ضعیف،معلول بلکہ خالص جعلی اور من گھڑت بھی موجود ہیں ‘‘ (مقام ابوحنیفہ رحمہ اللہ : ص ۲۶۱)