کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 79
’’ائمہ فن کا اتفاق ہے کہ صحیحین کی احادیث مقطوع بالصحت ہیں ‘‘ (النکت لابن حجر) علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : ’’ ذھب الحافظ الٰی انھا تفید القطع والیہ جنح شمس الأئمہ السرخسی من الحنفیۃ والحافظ ابن تیمیۃ والشیخ ابوعمر و ابن الصلاح وھؤلاء و ان کانوا اقل عددا إلا ان الرأی ھو الرأی ‘‘(فیض الباری ص ۴۵ ج ۱) ’’حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس طرف گئے ہیں کہ بخاری کی روایات قطعیت کا فائدہ دیتی ہیں،حنفیہ میں سے شمس الائمہ سرخسی اور حافظ ابن تیمیہ،شیخ ابوعمرو ابن الصلاح کا بھی اسی طرف میلان ہے اور یہ اگرچہ تعداد کے اعتبار سے کم ہیں مگر رائے وہی رائے ہے۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام منہاج السنۃ ص ۵۸۔۵۹ج ۴ میں قابل دید ہے۔ان حضرات کے علاوہ ابوحامد الاسفرائنی،قاضی ابو الطیب،قاضی عبدالوہاب،ابویعلیٰ ابن الفراء،ابوالخطاب،محفوظ بن احمد،ابن الزاغونی کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ بخاری ومسلم کی مسند روایات مقطوع بالصحت ہیں بلکہ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : کہ تمام اہل حدیث اور عموماً سلف کا یہی خیال ہے۔(اختصار علوم الحدیث ص ۳۸ توجیہ النظر ص ۱۲۷) صحیح بخاری کی اہمیت گھٹانے والے بدعتی اور غیر مومنوں کے راستے پر چلنے والے ہیں۔ شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی رحمہ اللہ کا فیصلہ بھی پڑھ لیجیے لکھتے ہیں : ’’اما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع وانھما متواتران الی مصنفھما و انہ کل من یھون امرھما فھو مبتدع متبع غیر